لاپتہ افراد کے لواحقین کا قافلہ اسلام آباد پہنچ گیا
راولپنڈی: ایک 72 سالہ شخص کی قیادت میں دو ہزار کلو میٹر پیدل سفر کرنے کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کا قافلہ پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ گیا۔
یہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ان لاپتہ افراد کے لواحقین ہیں جو مبینہ طور پر پاکستانی حساس اداروں کی حراست میں ہیں۔
ریٹائرڈ بینکر ماما قدیر مارچ کے شرکاء کی قیادت کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد میں اقوام متحدہ اور غیر ملکی سفیروں کے سامنے اپنا موقف پیش کریں گے۔
قدیر نے اے ایف پی کو بتایا 'ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں روزانہ لوگ اغواء ہورہے ہیں۔ ضلعوں میں بمباری کی جارہی ہے اور مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہورہی ہیں'۔
قدیر کے بیٹے اور بلوچ ریپبلیکن پارٹی کے رکن جلیل ریکی کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی حکومت سے کوئی امید نہیں رہی۔ اسی وجہ سے وہ بین الاقوامی تنظیموں سے رابطے کررہے ہیں تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھ سکے۔
مارچ کے شرکاء گزشتہ سال اکتوبر میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے روانہ ہوئے تھے۔
اس سے قبل وہ سندھ کے دارالحکومت کراچی پہنچے تھے جس کے بعد انہوں نے اسلام آباد کا رخ کیا۔
قدرتی ذخائر سے مالامال صوبہ بلوچستان رقبے کے حساب سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، تاہم یہاں کی آبادی سب سے کم ہے۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ بھی ہے جہاں علیحدگی پسند تنظیمیں زیادہ اختیارات اور قدرتی ذخائر کے زیادہ شیئر کا مطالبہ کرتیں ہیں۔
2004ء کے بعد سے علیحدگی پسند تنظیمیں مزید متحرک ہوگئی ہیں اور سیکورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ سیکورٹی فورسز مبینہ بلوچ باغیوں کو ہلاک کرکے ان کی لاشوں کو سڑک کنارے پھینک دیتی ہیں۔
تاہم سیکورٹی سروسز ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہیں۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے تحقیقات کرچکا ہے اور حکومت سے ان افراد کا بازیاب کروانا کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔