پاکستان کی نئی سیکیورٹی پالیسی کا مقصد، مدرسوں کی اصلاح
اسلام آباد: پاکستان کی جانب سے حال ہی میں پیش کردہ نئی سیکیورٹی پالیسی کے تحت ملک میں موجود تمام مدارس اور دینی اسکولوں کو ایک سال کے اندر قومی تعلیمی نظام کے تحت لایا جائے گا۔
' ملک کی پہلی اندرونی سیکیورٹی پالیسی' کی دستاویز اے ایف پی نے دیکھی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں موجود تقریباً 22,000 مدارس میں سے کچھ شدت پسندی کے فروغ میں ملوث ہیں۔
ملک میں جاری دس سال سے زائد شدت پسندی کی لہر کے دوران وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بدھ کے روز پارلیمنٹ میں نئی سیکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں اور ملکی معیشت کو 78 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔
دستاویز کے مطابق ' یہ شامل کرنا ضروری ہے کہ تمام مدارس ہی مسئلے کی وجہ نہیں اور ان سب ( مدارس) کو منفی انداز میں نہیں دیکھنا چاہئے۔'
' تاہم ، بعض مدارس میں کچھ مسائل ہیں اور وہ شدت پسندی پھیلارہے ہیں،' اور اس فہرست کے ' بعض مدارس نامعلوم ذرائع سے فنڈ حاصل کررہے ہیں اور ' نفرت انگیز لٹریچر کی تیاری اور تقسیم کررہےہیں۔'
پاکستان میں مدارس کی اکثریت پر حکومتی کنٹرول نہیں اور نہ ہی حکومت انہیں کوئی مالی مدد فراہم کرتی ہے۔ بعض مدارس پر یہ الزامات بھی ہیں کہ وہ اسلام کے دیگر فرقوں یا غیر مسلموں کیخلاف نفرت کے اظہار میں ملوث ہیں۔
' دہشتگردوں کی بڑی تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جو یا تو مدرسے میں پڑھ رہے ہیں یا پھر مدارس سےتعلق رکھتے ہیں۔ یہاں ان کا برین واش کیا جاتا ہے جو ریاست کیخلاف ہتھیار اُٹھاتے ہیں،' دستاویز میں کہا گیا۔ نئی سیکیورٹی پالیسی 94صفحات پر مشتمل ہے جس سے ظاہر ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی ناکامی کی اہم وجوہ کیا ہیں۔ پالیسی میں دہشتگردی اور شدت پسندی پر قومی اتفاقِ رائے اور یکساں آواز کی سفارش بھی کی گئی ہے۔