بیلجئیم میں 19 'جہادیوں' کے خلاف عدالتی کارروائی
برسلز: بیلجئیم میں مبینہ طور پر ایک مقامی جہادی نیٹ ورک کے لیے بھرتیاں کرنے والے انیس لوگوں کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز ہو گیا۔
سخت سیکورٹی میں شروع ہونے والی اس کارروائی میں پندرہ مردوں اور چار عورتوں پر الزام ہے کہ انہوں نے صومالیہ میں جہادی گرہوں کے ہمراہ لڑائیوں میں حصہ لیا یا وہاں جانے کی کوشش کی اور بلجیئم کی ایک مقامی جہادی تنظیم کی معاونت کی۔
تمام انیس ملزمان پرایک دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھنے کے الزامات ہیں۔
ملزمان میں شامل برسلز کے ایک ہیئر ڈریسر حسن خافی پہلے ہی عدالت میں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے 2011 صومالیہ میں القاعدہ سے منسلک گروپ الشباب میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی۔
بیلجیئم نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق انتالیس سالہ خافی نے برسلز میں عدالت کو بتایا کہ انہوں نے صومالیہ میں کسی لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا کیونکہ الشباب نے انہیں ناقابل بھروسہ تصور کرتے ہوئے ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے تھے۔
خافی کو مئی، 2012، کینیا میں گرفتار کرنے کے بعد پچھلے سال بیلجئیم کے حوالے کر دیا گیا۔
ان کے تین ساتھی غیر قانونی طور پر کینیا میں داخل ہونے پر قید ہیں،اور انہیں جلد ہی بیلجئیم واپس بھیجے جانے کا امکان ہے۔
بیلجئیم کے روزنامہ لی سوئر ڈیلی کے مطابق کینیا میں قید تین بیلجیئن شہریوں میں سے ایک رشید بن عمری کی کئی تصویریں شائع ہوئی ہیں جن میں وہ ہاتھوں میں چھری تھامے 'کافروں' کی گردنیں کاٹنے کا عزم کر رہے ہیں۔
اس مقدمے کی کارروائی ایسے وقت ہو رہی ہے جب بلجیئم کے شہیریوں کے بارے میں تشویش ہے کہ وہ جہادی گرہوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے افریقہ، شام اور پاک – افغان سرحدی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔
بہت سے یورپی شہری پہلے ہی شام میں تین سال سے جاری خونی تنازعہ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ مزید پوریئنز شام جانے کے خواہش مند ہیں۔
یورپ میں خوف پایا جاتا ہے کہ یہ تربیت یافتہ اور تجربہ کار جنگجو واپس لوٹنے پر دہشت گرد گروپوں کی مدد اور جہادی بھرتیوں میں تیزی کا سبب بن سکتے ہیں۔