'کالعدم' تحریک فری میسن پاکستان

اپ ڈیٹ 17 مارچ 2016
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ

جی ہاں! کراچی میں بھی فری میسن ہال تھا اور اس میں سرگرمیاں بھی ہوتی تھیں۔ اگر آپ کو اس کے محل وقوع کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تو پتہ بہت آسان ہے، آپ کو بس فوارہ چوک پہنچنا پڑے گا۔

اگر آپ کو فوارہ چوک کے بارے میں نہیں معلوم کہ یہ کہاں اور کس مقام پر ہے تو ہم بتائے دیتے ہیں۔ فوارہ چوک صدر کے علاقے سے گذرنے والی سڑک عبداللہ ہارون روڈ (سابقہ وکٹوریہ روڈ) پر واقع ہے۔

چوک کے ایک جانب پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کی قدیم عبادت گاہ ٹرینٹی چرچ اور دوسری جانب گورنر ہاؤس ہے، ایک طرف جعفر برادرز کی کثیر المنزلہ کشتی نما عمارت اور دوسری جانب فلک بوس اسٹیٹ لائف بلڈنگ ہے.

اس چوک سے آپ اگر آرٹس کاؤنسل کی جانب جانے والی سڑک پر روانہ ہوں تو بائیں جانب سب سے پہلی عمارت انسٹی ٹیوٹ آف فارن افئیرز کی ہے۔ اس کے بعد اس کے ساتھ ہی ایک اور قدیم عمارت ہے۔

یہ عمارت کچھ پراسرار سی بھی لگتی ہے، احاطے میں کچھ گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں جب کہ بند گیٹ سے کچھ فاصلے پر ایک کرسی پر سردیوں میں دھوپ کے مزے لیتا ہوا ایک عمر رسیدہ چوکیدار اونگھ رہا ہوتا ہے۔ کچھ پرانے درخت بھی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ گرمیوں میں ان کے سائے تلے بیٹھنے والا کوئی نہیں ہوتا اس لیے وہ بھی اداس نظر آتے ہیں.

یہ فری میسن ہال ہوپ لاج کی عمارت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ کراچی میں اب کتنے لوگ فری میسن تنظیم اور اس کے زیر انتظام ہوپ لاج کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ ہم نے کھوجنا کی تو ان کی حمایت میں تو بہت کم لیکن مخالفت میں بہت زیادہ مواد دستیاب تھا۔

عموماً مسلمان قلم کاروں کی رائے یہ ہے کہ فری میسن دراصل یہودیوں کی پروردہ ایک تنظیم تھی لیکن تقسیم سے پہلے یہ حقیقت مختلف تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تنظیم میں تقسیم سے قبل اور بعد میں مسلمان بھی شامل ہوتے تھے۔

تقسیم سے قبل کراچی کے مسلمانوں میں ایک بڑا نام جام ایوب عالیانی کا ہے جن کا نام اب بھی عمارت کی ایک تختی پر موجود ہے۔ صرف ان کا ہی نام نہیں بلکہ دو اور مسلمانوں کے نام بھی تختی پر موجود ہیں۔ جن میں سے ایک "ایم ایم آر شیرازی" اور دوسرا نام "ایم جی حسن" ہے۔

جام ایوب صرف تنظیم کے رکن تھے لیکن یہ دونوں حضرات فری میسن تنظیم کے عہدیدار بھی تھے۔ ہندو اراکین میں ڈبلیو ایف بھوجوانی، کے پی ایڈوانی جبکہ پارسی اراکین میں ڈی ایف سیٹنا کا نام تحریر ہے۔


سائیں جی ایم سید اپنی کتاب "جنب گذاریم جن سین" میں 'میر ایوب خان ولد جام میر خان بریسٹر' کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ؛

"وہ ایک بے ریا، یار باش اور آزاد خیال خاندانی فرد تھے. مجھے ان کے ساتھ میونسپلٹی، لوکل بورڈ، انجمن ترقی اردو، ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن، فری میسنری، سندھ مدرسہ بورڈ اور سندھ محمڈن ایسوسی ایشن میں کام کرنے کا موقع ملا"۔


جام ایوب کا نام تو اب بھی فری میسن ہال کے بورڈ پر موجود ہے لیکن سائیں جی ایم سید کا نام نہیں ہے۔ جب کہ سائیں جی ایم سید خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے جام ایوب کے ساتھ مل کر فری میسن تنظیم میں کام کیا ہے یعنی کہ وہ بھی فری میسن تنظیم کے ممبر تھے۔

ہمارے دوست مورخ عقیل عباس جعفری کے مطابق مرزا اسد اللہ خان غالب بھی فری میسن تنظیم کے رکن تھے۔ اس کی تصدیق نامور ادیب اور دانشور جناب اجمل کمال نے بھی کی۔


جام ایوب کی فری میسن تنظیم میں شمولیت کے بارے میں محمد عثمان دموہی اپنی کتاب "کراچی: تاریخ کے آئینے میں" میں لکھتے ہیں کہ؛

آپ جون 1894 میں کنگ جارج پنجم کی اجازت سے ایران کے نائب کونسل مقرر ہوئے اور1927 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان دنوں کراچی میں فری میسن کی سرگرمیاں زوروں پر تھیں۔ وہ شہر میں اکثر کلچرل پروگرام کراتی رہتی تھی۔ آپ فری میسن کی کراچی شاخ کے اعزازی ممبر تھے۔ اس وقت دراصل اس تحریک کے مذموم عزائم عوام پر آشکار نہیں ہوئے تھے۔"


13جولائی 2011 کو عبیرہ خان روزنامہ ڈان میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ؛

"فری میسن تنظیم کے آغاز کی کہانی پر اسراریت میں ڈوبی ہوئی ہے جس کی وجہ ان کی وہ خفیہ رسومات اور سرگرمیاں ہیں جو سینکڑوں برسوں سے جاری ہیں۔ ان کے زیر انتظام عمارتوں کو نمایاں کرنے کے لیے دو بڑی نشانیاں ہیں ایک تو پرکار(Compas) اور دوسرا تکون (Triangle)."


لیکن کیا یہ نشانیاں صرف فری میسن ہالز تک محدود تھیں؟

اس کا جواب ہمارے فوٹو جرنلسٹ دوست اختر سومرو نے ایک بلند آواز 'نہیں!' سے دیا۔ انہوں نے ہمیں لاہور کے جنرل پوسٹ آفس کی ایک فضا سے لی گئی تصویر کی جانب مبذول کروائی جسے غور سے دیکھنے پر فری میسن کے زیر استعمال نشانیاں بالکل واضح ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فری میسن تحریک سے وابستہ لوگوں کا اثر و نفوذ اتنا زیادہ تھا کہ وہ لوگوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ عمارتوں کی تعمیر اس طرز پر کریں کہ ان کے نقشے سے فری میسن علامات واضح ہوں۔ پاکستان اور خصوصاً کراچی میں انگریزی دور کی بہت سی قدیم عمارات ہیں جن کی نقشہ سازی میں بہت سے یوروپین (کرسچین اور یہودی) نقشہ سازوں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

لیکن کم از کم ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ کراچی کے ہوپ لاج فری میسن ہال کے علاوہ ہمیں کسی بھی دوسری عمارت پر فری میسن کی علامات نظر نہیں آئیں. اگر فری میسن واقعی یہودیوں کے حقوق کی تنظیم تھی تو ان کی علامات ہمیں ان عمارتوں میں بھی نظر آنی چاہئے۔ یہودیوں کی علامات تو کچھ عمارتوں پر نظر آتی ہیں۔ لیکن یہودیوں اور فری میسن کی علامات میں کافی فرق ہے۔

پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ اگر کراچی کے کسی رہائشی کو یہ علامات کسی عمارت میں نظر آئیں تو مجھے ضرور آگاہ کریں۔ پاکستان میں فری میسن تنظیم کے ساتھ کیا ہوا، یہ ایک اور دردناک کہانی ہے۔

روزنامہ ڈان میں 19 جولائی 1973 کو شائع ہونے والی خبر جس کا عنوان ہے "شہر کا فری میسن ہال قبضے میں لے لیا گیا"۔

خبر کے مطابق ایک مجسٹریٹ کی سربراہی میں سندھ حکومت کی جانب سے فری میسن ہال قبضے میں لے لیا گیا اور اس میں موجود تمام دستاویزات بھی قبضے میں لے لی گئیں۔ خبر میں مزید بتایا گیا کہ؛

"کراچی میں پہلے لاج یعنی ہوپ لاج کا سنگ بنیاد 7 ستمبر 1843 کو رکھا گیا اور سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپیئر کو بھی اعزازی رکن بنایا گیا. سرکار نے یہ قدم عوام کے مطالبوں اور فری میسن تنظیم کے ایک باغی گروپ کی ایماء پر اٹھایا، عام تاثر یہ ہے کہ فری میسن یہودیوں کی پروردہ اور اسلامی نظریات کے خلاف ہے۔"

فری میسن تنظیم پر لگنے والی پابندی کے حوالے سے ایک ویب سائٹ پر دست یاب رپورٹ کے مطابق 16-06-1983 کو مارشل لاء ریگولیشن 56 کے تحت فری میسن کی غیر قانونی سرگرمیوں پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی گئی۔ لیکن اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ اس حکم کے تناظر میں 29-12-1985 کو ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔

اس سے قبل 1965 کے آخر میں حکومت پاکستان کی جانب سے مسلح افواج کے اراکین پر فری میسن، روٹری اور لائنز کلب کی رکنیت لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 1969 میں دیگر سرکاری ملازمین پر بھی پابندی عائد کردی گئی کہ وہ ایسے کسی ادارے کے رکن نہیں بن سکتے جس کے اغراض و مقاصد سے عوام ناواقف ہوں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فری میسن تنظیم پر پہلی بار پابندی کب لگی؟ 1972 میں 1973 میں یا 1983 میں؟

ہم نے اس سلسلے میں اپنے ایک وکیل دوست یونس شاد کی مدد سے مارشل لاء ریگولیشن کی وہ نقل حاصل کرلی جس کے تحت فری میسن تنظیم پر پابندی لگائی گئی تھی۔

MARTIAL LAW REGULATION BY CHIEF MARTIAL LAW ADMINISTRATOR (Gazette of Pakistan, Extraordinary, Part I, 17th June 1983) No 56

دفعہ (1) کے تحت اس ریگولیشن کے اجراء سے قبل اگر اس حوالے سے کوئی اور قانون یا عدالتی فیصلہ یا معاہدہ موجود ہے تو وہ منسوخ سمجھا جائے گا.

دفعہ نمبر(2) کے تحت ایک تنظیم جو عمومی طور پر 'فری میسن' کے نام سے جانی جاتی ہے کالعدم قرار دی جاتی ہے اور اس کو تحلیل کیا جاتا ہے۔ دفعہ نمبر (3) کے مطابق اس تنظیم کے زیر اہتمام تمام جائیدادیں متعلقہ صوبائی حکومتوں کے قبضے میں دی جاتی ہیں۔ دفعہ نمبر (4) کے مطابق اس سلسلے میں کسی بھی دعوے دار کو کوئی معاوضہ ادانہیں کیا جائے گا۔ دفعہ نمبر (5) کے تحت تنظیم کی جانب سے کسی بھی عدالت میں کوئی درخواست دائر نہیں کی جاسکے گی ۔ دفعہ نمبر(6) کے مطابق اگر صوبائی حکومتیں اس ضمن میں کوئی مشکلات محسوس کرے تو وہ وفاقی حکومت کی مدد حاصل کرسکتی ہے۔ دفعہ نمبر(7) کے مطابق اس حکم پر عمل درآمد کے حوالے سے اگر کوئی رکاوٹ ڈالے تو اسے 3 سال قید بامشقت جرمانے کے ساتھ اور بغیر جرمانہ کے بھگتنی ہوگی۔

چند سال پہلے ایک عالمی غیر سرکاری ادارے کے سینئر مینیجر مائیک بروس نے میرے دوست مظہر کے توسط سے رابطہ کیا کہ وہ فری میسن ہال دیکھنا چاہتے ہیں اور مجھ سے اس کی کہانی سننا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے وقت کم تھا اور میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں آسکا. اپنے ایک اور ساتھی امر گرڑو سے گزارش کی کہ وہ انھیں فری میسن ہال کا وزٹ کروادیں۔

کراچی روشنیوں کا شہر اس وقت لوڈشیڈنگ میں ڈوبا ہوا تھا جب مائیک آیا۔ موبائل کی ٹارچ کی روشنی میں میرے دوست امر نے انھیں فری میسن ہال کا وزٹ کروایا۔ جس میں بہ مشکل وہ ڈیوڈ سٹار اور ممبران کے ناموں کی تختی دیکھ پائے۔ مائیک دنگ رہ گیا کہ پاکستان کے تاریخی بیانئے narrative میں اس کی کمیونٹی کے وجود کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں جب کہ حقیقت میں ایسی تاریخی جگہیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ وہ بھی کبھی یہاں بسا کرتے تھے۔

مہینوں بعد ہم نے اسے یہ بھی بتایا کہ میوہ شاہ قبرستان کے ساتھ یہودی کمیونٹی کا ایک قبرستان بھی موجود ہے اور ایک synagogue بھی۔ اور یہ بھی کہ کراچی کی کم از کم ایک درجن عمارتوں میں کہیں نہ کہیں ہمیں Star of David نظر آتا ہے۔

مائیک بروس کی خواہش ہے کہ پاکستان میں اتنی مذہبی آزادی ہو کہ وہ آزادی سے آکر وہ تمام عمارتیں اپنی آنکھوں سے دن دہاڑے دیکھ سکیں۔ وہ فری میسن ہال چوری چھپے دیکھنے آۓ تھے۔ اپنے ادارے کی ہدایت کے مطابق وہ تاریکی ہونے کے بعد ہوٹل تک سے باہر نہیں نکل سکتے تھے.

محقق اور ناول نویس ڈین براؤن کے مطابق واشنگٹن شہر میں کانگریس لائبریری سے لے کر وائٹ ہاوس تک تمام اہم سرکاری عمارتوں میں جا بجا Star of David اور فری میسن کی دیگر علامات موجود ہیں۔ اور تو اور ڈالر کے کرنسی نوٹ پر بھی آپ انھیں دیکھ سکتے ہیں۔

ڈین براون اور دیگر محققین کے مطابق امریکا کے بانی اور پہلے صدر جارج واشنگٹن بھی فری میسن سوسائٹی کی Secret Brotherhood کے ممبر تھے۔ یہی نہیں، لیونارڈو ڈاونچی بھی اخوان کے ممبر تھے۔

بات طویل ہورہی ہے اس عمارت کے حوالے سے ہم مزید کچھ معلومات آپ کو اگلی قسط میں فراہم کریں گے۔

تبصرے (7) بند ہیں

Amer Soharwardi Mar 14, 2014 07:23pm
اختر بلوچ کی کاوش قابل قدر ہے ،،ایسے بہت سے اہم راز کراچی میں مختلف جگہوں پر مدفون ہیں ،،کہیں ان کو انتظامیہ نے چھپایا ہوا ہے اور کہیں ارادوں نے،،،
Bilal Zafar Mar 14, 2014 10:23pm
حیرت انگیز انکشاف کم از کم میرے لئے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جام ایوب عالیانی جام آف لسبیلہ بھی فری میسن کے ممبر تھے، ممبر تو سائیں جی ایم سید بھی تھے لیکن میرے لئے ایک اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سائیں انجمن ترقی اردو کے بھی ممبر تھے، پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اُردو بولنے والوں سے اُن کی دوریاں اس قدر بڑھ گئیں کہ اب یہ نفرت کا ایک ایسا سمندر بن گیا ہےجسے پار کرنااردو اور سندھی دونوں کیلئے پار کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اختر بلوچ صاحب آپ کیلئے دل چاہتا ہے کہ کہوں لگے رہو مُنا بھائی!!!!!!!
Bilal Zafar Mar 14, 2014 10:29pm
اس کالم کو پڑھنے کے بعد میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور میری سندھ حکومت سے اپیل ہے کہ اختر بلوچ صاحب کو ان کی خدمات کے عیوض حکومتی اعزاز سے نواذا جائے.
najjeb Mar 14, 2014 10:52pm
the book of mr usman dhobi karchi tareekh ke ayene mai please correct the year 1994
Rana Usman Mar 15, 2014 12:02am
What an articulate eassy.
khobaib hayat Mar 15, 2014 10:34pm
akhter,rat club myn tum nay nhi btaya ke dil hila denay wali khabron ke sheher myn dimagh hila denay wali kahanian mojood hyn ,bohohot bohot umdah
Taha Ubaidi Mar 16, 2014 03:40pm
Akhter Balouch Sahab , Bohat Khoob ...