نئی نویلی پشاوری چپل جب آپ پہلی بار پہنتے ہیں تو اس سے ایک مخصوص چرچراہٹ کی آواز آتی ہے- اس ہفتے ایسا معلوم ہوا جیسے اس چرچراہٹ کی گونج دنیا بھر میں پھیل گئی ہو-

انٹرنیٹ پر اخبار میں پشاوری چپل کا قصہ پڑھا تو سوچا تھوڑا معلوم تو کیا جائے کہ آخر ایک پشاوری چپل کوئی گورا تین سو پاؤنڈ میں بیچ رہا ہے تو اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہو گئی؟

پہلے تو ان حضرت کے بارے میں چیدہ چیدہ معلومات حاصل کیں- جناب کا نام ہے، سر پال اسمتھ- سر کے خطاب یافتہ یہ حضرت، فیشن انڈسٹری میں ایک پرانا اور معتبر نام اور مقام رکھتے ہیں- سر پال اسمتھ، مردانہ ملبوسات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں-

پھر دوبارہ اس خبر پر نظر دوڑائی وہاں اس حوالے سے پاکستان کی فیشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کی رائے نہ صرف موجود تھی بلکہ خاصی مزیدار تھی جہاں چند نے سر پال اسمتھ کی اس "چوری" پر ہمارے سیاسدانوں کی ہی طرح 'شدید غم و غصے' کا اظہار کیا اور اسے مغرب کی جانب سے ہمارے استحصال کی تازہ ترین مثال قرار دیا وہیں ایک صاحب نے بڑی بے باکی سے پہلے تو اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی پشاوری چپل نہیں پہنی اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں سر پال اسمتھ کی تیار کردہ اس چپل کو پہننے میں کوئی عار نہیں ہو گا کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کی تیار کردہ چپل زیادہ آرام دہ ہو گی-

اس داستان کے بارے میں ایک انگریزی اخبار میں چھپے بلاگ میں لکھاری نے سر پال اسمتھ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ چپل کے حوالے سے کم از کم پشاور کو کریڈٹ دیں اور ہو سکے تو اسے پاکستانی کاریگروں سے تیار کرائیں تا کہ ان کی مالی مدد ہو سکے اور پاکستان اور برطانیہ کے معاشی تعلقات میں بھی بہتری آ سکے-

فیشن انڈسٹری میں شاید اس طرح کی انسپریشن عام بات ہے تبھی تو ایک بلاگر نے پاکستانی اور ہندوستانی ملبوسات سے متاثر چند مشہور و معروف ڈیزائنر کے بارے میں کوئی ڈیڑھ سال پہلے کھل کر اظہار خیال کر دیا تھا-

پاکستان کے ایک بزنس مین نے تو اپنے وکیلوں سے اس بارے میں مشورہ لینا بھی شروع کر دیا ہے کہ اس حوالے سے سر پال اسمتھ پر کیس ٹھوکا جا سکتا ہے یا نہیں-

سوشل میڈیا اور خاص طور پر ٹویٹر پر تو جیسے ٹرولنگ (TROLLING) کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر جب یہ خبر سوشل میڈیا اور چند دیگر غیر ملکی اخباروں میں بھی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو شاید ایک ہی دن بعد سر پال اسمتھ کی ویب سائٹ پر مذکورہ چپل کی تفصیلات میں پشاوری چپل سے انسپائر ہونے کا ذکر شامل کر دیا گیا ہے. تاہم، شاید چند تکنیکی وجوہات کی بناء پر رابرٹ کا نام اب بھی یو آر ایل میں موجود ہے-

چپل کے کاریگروں نے تو سر پال اسمتھ کے ڈیزائن کو آوٹ ڈیٹڈ قرار دے دیا اور نیٹ پر ایک بلاگر نے تو وہ وجوہات بھی بیان کر دیں جن کی وجہ سے سر پال اسمتھ کی سینڈل کے مقابلے میں مقامی تیار شدہ پشاوری چپلوں کو ترجیح ملنی چاہئے-

مجھے اب تک بس یہ سمجھ نہیں آ سکا کہ ہمارا غصہ کس بات پر زیادہ تھا؟ پشاور کا نام استعمال نہ کرنے پر یا اس کی تین سو پاؤنڈ قیمت پر؟

اس حوالے سے ٹویٹس کا آغاز غالباً پاکستان میں خاصا وقت گزار چکے معروف مغربی صحافی، ڈنکن والش کی اس ٹویٹ سے ہوا تھا جہاں انہوں نے چپل کی قیمت پندرہ پاؤنڈ اور اس پر موجود گلابی فلوریسینٹ پٹی کے قیمت دو سو پچاسی پاؤنڈ بتائی-

بس صاحب، پھر کیا تھا، ایسا لگا کہ تمام پاکستانیوں کو جیسے کسی نے گالی دے دی ہو، ایک پر ایک ٹویٹ- اب بھی اگر آپ جا کر ٹویٹر پر PESHAWARICHAPPAL# سرچ کریں تو آپ کو نہایت چٹ پٹے جملے پڑھنے کو ملیں گے-

کسی نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ بیگ بھر کر پشاوری چپلیں لے کر برطانیہ جا رہا ہے تا کہ انھیں وہاں پچاس پاؤنڈ فی جوڑی کے حساب سے بیچ کر جلد امیر ہو سکے تو کوئی اسے پاکستانی کلچر کی پروموشن کے طور پر لے رہا تھا- لیکن ایک بات تو طے ہے، پچھلے چند ایک روز میں پشاوری چپلوں کی فروخت میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ بہت سے لوگوں نے اپنی الماریوں میں رکھی اپنی پشاوری چپلیں نکال کر پہنی نہیں تو کم از کم جھاڑ پونچھ کر تو ضرور رکھی ہیں، نہ جانے کب ضرورت پڑ جائے؟

مگر صاحب، اب کوئی یہ تو بتائے کہ سر پال اسمتھ نے تو ایک کاروباری ہوتے ہوئے شاید صرف اس بناء پر کہ مذکورہ ڈیزائن میڈیا کی نظروں پر آ گیا اور چند صارفین نے ان سے اس حوالے سے پشاور کو کریڈٹ دینے کا مطالبہ کیا تھا تو انہوں نے اپنی غلطی کی اصلاح کرلی اور اپنی ویب سائٹ پر چپل کے ساتھ پشاوری چپل سے انسپائر ہونے کا ذکر بھی ڈال ہی دیا، لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ ہمارے سیاستدانوں اور دیدہ و 'نادیدہ' حکمرانوں کو کون سی چپل کی مار چاہئے کہ ان کے ہوش ٹھکانے آئیں؟

تھر کی موجودہ صورتحال، چاہے میڈیا کی پھیلائی مبالغہ آرائی کیوں نہ ہو اور چاہے تھر میں ہلاک ہونے والوں بچوں میں اکثر کی اموات کی وجہ بیماری ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کے باوجود، سوشل میڈیا پر آنے والی ایک ویڈیو کو دیکھ کر تو جی چاہتا ہے کہ ان کے سروں پر صرف چپلیں ہی ماری جائیں تبھی شاید ان کے ہوش ٹھکانے آئیں- کیا کسی بھی انسان کو --حکمران کو تو چھوڑیں-- یہ زیب دے گا کہ وہ قحط زدہ افراد کے ساتھ ہمدردی کرنے پہنچے اور خود وہاں کوفتوں اور بریانی پر قحط کے مارے افراد کی طرح ٹوٹ پڑے؟

مزے کی بات تو یہ کہ رات کو ٹاک شو میں حکمران جماعت کے افراد اس بات کا جواب دینے کے بجائے کہ اس صورتحال کے بارے میں بروقت اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے اور صورتحال کا علم ہونے کے بعد بھی بھجوائی گئی لاکھ سے زیادہ گندم کی بوریوں میں سے صرف چھ ہزار ہی تقسیم کی جا سکیں، اس بات پر واویلا کر رہے تھے کہ ان کی حکومت کو بلاجواز نشانہ بنایا جا رہا ہے اور تھر میں تو یہ صورتحال ہر سال ہوتی ہے-

صاحب، میری تو بس اتنی گزارش ہے کہ جب ایک انگریز اپنے صارفین کی جانب سے چند ٹویٹس کی بناء پر اپنی پروڈکٹ کے نام کے حوالے سے تبدیلیاں کر سکتا ہے تو ہمارے یہ حکمران، جو ہمارے ہی ووٹوں سے حکمران بنے ہیں (کم از کم ہمیں بتایا تو یہی گیا ہے) ہمارے بچوں کو موت سے بچانے کے لئے کب نیند سے جاگیں گے؟ اگر یہ صورتحال ہر سال ہوتی ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی اب تک وضع کیوں نہیں کی گئی؟

یہاں لڑائی اس بات پر چل رہی ہے کہ صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور بچے زیادہ تر بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئے، لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ صاحب کیا یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ خود ان کے بقول "تھر کی عورتیں تو مجھ سے بات بھی نہیں کر رہی تھیں اور وزیر اعظم صاحب یہ پتہ نہیں کیسے آپ سے نہ صرف بات کر رہی ہے بلکہ اپنا گھونگھٹ بھی تھوڑا بہت اٹھا رہی ہیں"-

لگتا ہے تھری عورتوں کا یہ رویہ شاید چپل کی مار کی طرح محسوس ہوا کہ حکومت اپنی تمام سرکاری مشینری کے باوجود وزیر اعظم کی مٹھی آمد کے موقع تک صرف چھ ہزار بوریاں ہی تقسیم کرا سکی- ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب اس تقسیم کے بارے میں بھی چند ماہ بعد خبریں اسی طرح کی آئیں جیسے سیلاب کے چند ماہ بعد آئیں تھیں کہ عطیے کے طور پر بھیجی جانے والی سینکڑوں بوریاں ایک بااثر وڈیرے کے گودام سے برآمد ہوئیں-

اس سلسلے میں امدادی کارروئیوں کی رفتار کے بارے میں خبروں میں مسلسل آ رہا ہے تاہم، حکومت سندھ نے اپنے چیف ریلیف کمشنر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے- یہ حضرت اس سے پہلے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہ چکے ہیں اور ان کی کارگزاریاں جاننے کیلئے بھی انٹرنیٹ پر ہی خاصا مواد موجود ہے- کوئی ہمیں سمجھائے کہ جس شخص کو خود طبی امداد کی ضرورت ہو اسے ریلیف کمشنر مقرر کس نے کیا تھا؟

ویسے ٹویٹر پر کسی نے یہ صائب مشورہ بھی دیا تھا کہ نسوار کو بھی پیٹنٹ کرا لینا چاہئے کیوں کہ نہ جانے کب اور کون سا گورا، نسوار کو کسی ڈیلیکسی کے طور پر متعارف کرا دے گا-

ویسے پھجے کے پائے کو بھی پیٹنٹ کرانے کا مشورہ موجود ہے ساتھ ہی چپلی کباب بھی-

ہم نے انٹرنیٹ پر شور مچا کر سر پال اسمتھ کو تو اپنا مطالبہ ماننے پر مجبور کر دیا لیکن وہ کون سی چپل ہوگی جو ہمارے ارباب اختیار کے سروں پر پڑے اور وہ اپنا کام کرنے لگیں؟

تبصرے (0) بند ہیں