تبدیلی کے نعرے کا مطلب اسٹیٹس کو

اپ ڈیٹ 21 مارچ 2014
تبدیلی کا نعرہ لگانے والے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، جن پر ان کی پارٹی کے رکن عدنان رندھاوا نے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا الزام عائد کیا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
تبدیلی کا نعرہ لگانے والے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، جن پر ان کی پارٹی کے رکن عدنان رندھاوا نے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا الزام عائد کیا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

2013ء کے انتخابات کے موقع پر ہر بڑی سیاسی جماعت نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تبدیلی لائے گی، لیکن عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے جن لوگوں کو مرکز اور صوبوں کا اقتدار سونپا تھا، نو ماہ کا عرصہ گزرجانے کے بعد وہ لوگ اسی طرز کی سیاست کررہے ہیں، جو گزشتہ ساٹھ سالوں سے ہمارے ملک کے بیمار سسٹم کا حصہ چلی آرہی ہے۔ عوام کو ان کے اندازِ سیاست میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔اگر کوئی تبدیلی آئی بھی ہے تو وہ بہت نازک ہے۔

سیاست میں ایک ہفتے کا وقت کافی طویل ہوتا ہے، لیکن شاید یاد ہو کہ پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں ایوانِ صدر پر رات گئے چلّاتی ہوئی شہ سرخیاں میڈیا کے لیے تیار کی جاتی تھی، جو عام انتخابات کے ساتھ ختم ہوگئیں۔

اس وقت پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت جب بھی کسی بحران سے دوچار ہوتی، تو اس وقت کے صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین ایوان صدر میں پارٹی کی ’کور کمیٹی‘ کا اجلاس ایوانِ صدر میں طلب کرلیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان پر آمر کا داغ لگ گیا تھا۔

پیپلزپارٹی کے لیے کچھ بحران جیسے انتظار کرتے رہتے تھے، توہین عدالت کے الزامات اس کے دو وزیراعظم کے خلاف لگائے گئے، اب تو میموگیٹ اسکینڈل بھول کے خانے میں چلا گیا ہے۔

بلاشبہ صدر زرداری کو صرف ’کور کمیٹی‘ کے اراکین پر ہی بھروسہ تھا۔

سینیٹر بابر اعوان اس تصور کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔

جب انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا سپریم کورٹ میں دفاع کرنے سے انکار کردیا تھا تو ناصرف انہوں نے زرداری کا بھروسہ کھودیا تھا، بلکہ انہیں قانون کی وزارت سے ہٹائےجانے علاوہ پیپلزپارٹی عہدے سے بھی برطرف کردیا گیا تھا۔

اور عدالت نے یوسف رضا گیلانی سے پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ چھین لیا تھا۔

بحران کے ان دنوں میں پارٹی کے بہت سے اراکین کور کمیٹی پر تنقید کیا کرتے تھے اور اس ہجوم کو غیر جمہوری اور پیپلزپارٹی کے آئین کے خلاف قرار دیتے تھے۔

وقت بدل گیا لیکن عادت نہیں بدلی۔ پیپلزپارٹی کے وہ حریف جنہوں نے عام انتخابات میں پی پی کو اس کے آبائی صوبے سندھ میں محدود کردیا تھا، اب مبینہ طور پر پیپلزپارٹی کی وراثت حاصل کرلی ہے۔

پیپلزپارٹی کی بے دخلی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے بڑی حد تک پُر کیا ہے۔ پی ٹی آئی اس وقت خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت ہے، جبکہ پنجاب میں فاتح جماعت مسلم لیگ نون کے سامنے اپوزیشن کی مرکزی جماعت ہے۔

اب پیپلزپارٹی کے مخالفین کی طرح، پی ٹی آئی کی صفوں میں غیر مطمئن افراد پارٹی امور کو زرداری کے انداز میں چلانے کا الزام اپنے چیئرمین عمران خان پر عائد کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے معتبر ساتھیوں کو منتخب کرکے باقیوں کو نظرانداز کردیا ہے۔

اختتام ہفتہ کے دوران پی ٹی آئی کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات عدنان رندھاوا نے عمران خان کی جانب سے پارٹی کے آئین کو نظرانداز کرکے الگ راستہ اختیار کرنے پر کافی مایوس ہوگئے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’’پارٹی کی ایک منتخب سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اور نیشنل کونسل موجود ہے، لیکن کور کمیٹی کو بہت زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے۔‘‘

عدنان رندھاوا کے مطابق پی ٹی آئی کے آئین کے تحت پارٹی کے چیئرمین پابند ہیں کہ سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا ہر ساٹھ دن کے بعد اور نیشنل کونسل کا سال میں ایک مرتبہ اجلاس منعقد کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’’پارٹی قیادت کو صرف کور کمیٹی کے اجلاسوں میں ہی دلچسپی ہے۔ پاکستان کے عوام نے پی ٹی آئی پر عمران خان کی وجہ سے اعتماد کیا تھا، لیکن انہوں نے اپنی ذاتی اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پارٹی کو عملی طور پر اسی سیاسی اشرافیہ کے حوالے کردیا ہے، پی ٹی آئی جس اشرافیہ کے خلاف کھڑی ہوئی تھی۔ اس اسٹیٹس کو اب حتمی طور پر مستند ہوگیا اور اس پر عمران خان سے ملاقات کے لیے نواز شریف کی خصوصی طور پر آمد سے مہر لگ گئی ہے۔‘‘

اگرچہ پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ ان کا رومانس اب ختم ہوگیا ہے، اس لیے کہ ان کا جھکاؤ اسٹیٹس کو کے ذمہ دار سیاستدانوں کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا رومانس پی ٹی آئی کے ’تبدیلی‘ کے نعرے کے ساتھ ختم نہیں ہوا۔

لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عدنان رندھاوا نے بغاوت کرتے ہوئے اپنا اگلا قدم پاکستانی طرز سیاست کے مطابق ہی اُٹھایا، جس سے وہ متنفر ہوگئے تھے۔ راتوں رات انہوں نے اپنی پارٹی بنا ڈالی اور انڈیا کی عام آدمی پارٹی کا نام چرا کر اس کا نام بھی یہی رکھ دیا۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما اپنی پارٹی کے رویوں پر رندھاوا کی تنقید کو مسترد کررہے ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی جو سند سے پی ٹی آئی کے واحد رکن قومی اسمبلی ہیں، انہوں نے پی ٹی آئی کی کورکمیٹی اور اس کے مسلسل اجلاسوں کا دفاع کیا۔

انہوں نے کہا ’’نتیجہ خیز اور گہری توجہ کی حامل بحث کے لیے پارٹی کے آئین میں کور کمیٹی کے اجلاسوں کی اجازت دی گئی ہے، جس کے اراکین کو چیئرمین کی جانب سے سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی سے نامزد کیا جاتا ہے۔‘‘

درحقیقت یہ وہی تھے، جنہوں نے کور کمیٹی تشکیل دینے اور اس کی رکنیت محدود رکھنے کی سفارش کی تھی، تاکہ اس باہمی تبادلۂ خیال کو بامعنی بنایا جاسکے۔ جب بھی کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے، ہم ایجنڈے کے موضوع کی مناسبت سے ماہرین کو ان کی رائے سننے کے لیے مدعو کرتے ہیں۔یوں کوئی تیس شرکاء ایک مسئلے پر بحث کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری اصرار کرتی ہیں کہ ان کی پارٹی جمہوریت کے حقیقی اصولوں کی پیروی کررہی ہے، جہاں ہر ایک کا خیرمقدم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرے اور یہاں تک کہ وہ پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرسکتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ یہ درست ہو، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل سیکریٹری جہانگیر خان ترین کو اس اہم عہدے کے لیے عمران خان نے نامزد کیا تھا، پارٹی کے اعلٰی سطحی اجلاس میں پارٹی کے اہم اراکین کی جانب سے اس عہدے کے لیے انتخاب پر اصرار کے باوجود انہوں نے ایسا کیا تھا۔

ایک اندرونی ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کا اثر و رسوخ اس قدر مضبوط ہے کہ عمران خان نے اپنی ترنگ میں آکربلوچستان میں پارٹی کا مکمل ڈھانچہ تحلیل کردیا تھا۔

اس کی وجہ مبینہ طور پر یہ تھی کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی نے ترین کی تقرری کی مخالفت کی تھی اور ان کو اس عہدے پر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں