اسٹیٹ بینک کا مالی خسارے میں اضافے کا انتباہ

دوسری سہ ماہی رپورٹ 2014ء کے مطابق رواں سال مالی خسارے کی شرح چھ سے سات فیصد کی حد تک جاسکتی ہے۔
دوسری سہ ماہی رپورٹ 2014ء کے مطابق رواں سال مالی خسارے کی شرح چھ سے سات فیصد کی حد تک جاسکتی ہے۔

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ روز خبردار کیا کہ ملک کی معیشت میں کچھ مثبت اشاروں کے باوجود مالی خسارہ رواں مالی سال کی شرح چھ سے سات فیصد جی ڈی پی کی حد تک جاسکتا ہے، یہاں تک ہی اگر جولائی کے مہینے سے پہلی کولیشن سپورٹ فنڈ اور 3 جی لائسنس کی آمدنی حاصل ہوجاتی ہے۔

گزشتہ روز اسٹیٹ بینک کی جانب سے معیشت کی کیفیت پر اپنی دوسری سہ ماہی رپورٹ برائے مالی سال 2014ء جاری کردی۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2014ء کی پہلی ششماہی کے آخر تک ملک کے معاشی اظہاریوں میں واضح بہتری پیدا ہوگئی تھی، جبکہ نومبر کے بعد گرانی کا دباؤ کم ہو گیا ہے۔

زر مبادلہ کے ذخائر اور دسمبر 2013ء میں پاکستانی روپے کی مساوات پر دباؤ کم ہوگیا ہے اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں بہتری دکھائی دے رہی ہے جسے نجی شعبے کے قرض سے مزید سہارا مل رہا ہے۔

جی ڈی پی کی فیصد کے لحاظ سے مالیاتی خسارہ مالی سال 2014ء کی پہلی ششماہی میں کم ہو گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2014ء کی دوسری ششماہی میں مالیاتی اور بیرونی حسابات میں بہتری کا انحصار تھری جی لائسنسوں کی نیلامی کی متوقع آمدنی اور اتحادی سپورٹ فنڈ کی رقوم کی آمد پر ہے تاہم اگر متوقع سرکاری بیرونی رقوم مالی سال 2014ء کی دوسری ششماہی میں آگئیں تو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا پورے سال کے ابتدائی تخمینے سے تجاوز ہونے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں بیرونی حوالے سے حاصل ہونے والے حالیہ فائدے کو اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی غیر متوقع آمد سے منسوب کیا گیا جس سے منڈی میں توقعات پیدا ہوئی ہوں گی کہ پاکستان کو مال سال 2014ء کی چوتھی سہ ماہی میں تیل کی ادائیگیاں مؤخر کرنے کی سہولت مل سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے مالی سال 2014ء کی بقیہ مدت میں گرانی کی توقعات کی شدت کم ہونے کے ساتھ بازار میں شرح سود کا منظرنامہ بھی بدل گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کا تخمینہ ہے کہ مالی سال 2014ء میں اوسط گرانی آٹھ اعشاریہ پانچ سے نو عشاریہ پانچ فیصد کے درمیان رہے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث مالی سال 2014ء میں جی ڈی پی نمو کا ہدف حاصل کرنے کے امکانات متاثر ہو سکتے ہیں تاہم بڑے پیمانے کی اشیاء سازی بدستور مضبوط نمو کی حامل ہے جو ملک کی مجموعی اقتصادی نمو کے لئے اچھا شگون ہے۔

بڑے پیمانے کی اشیاء سازی کی بحالی کو توانائی کے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری، (گردشی قرضے کے تصفیے کے بعد) بجلی کی بہتر رسد، پچھلے چند برسوں کے دوران (اسٹیل، کاغذ، کھاد، مشروبات اور ربڑ کے شعبوں میں) استعداد میں اضافے اور نجی شعبے کے کاروبار کو ملنے والے قرضوں خصوصاً معینہ سرمایہ کاری قرضوں میں اضافے سے مزید تقویت ملی ہے۔

حکومت نے مالی سال 2014ء کی دوسری سہ ماہی کے دوران کمرشل بینکوں سے 188.1 ارب روپے حاصل کئے جبکہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 179.1 ارب روپے کی خالص واپسی ہوئی تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بہرکیف فروری اور مارچ 2014ء میں دو طرفہ رقوم کی آمد اور مالی سال 2014ء کی دوسری ششماہی میں متوقع دیگر بیرونی رقوم سے ان اہداف کا حصول آئندہ آسان ہونا چاہئے۔

رپورٹ کے مطابق اخراجات گھٹنے اور محاصل بڑھنے کی وجہ سے مالی سال 2014ء کی پہلی ششماہی کے دوران مالیاتی خسارہ کم ہوکر جی ڈی پی کے 2.1 فیصد تک رہ گیا جبکہ پچھلے برس اسی مدت میں 2.7 فیصد تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مالیاتی کفایت شعاری کا اثر وفاقی اور صوبائی سطح دونوں کے ترقیاتی اخراجات پر پڑا جس کے سبب بیرونی رقوم کے فقدان سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے نقطہ نظر کے مطابق مالیاتی استحکام کے اس پہلو پر معیشت کے طویل مدتی امکانات کے تناظر میں ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

بجٹ خسارے میں کمی سے ملکی قرضے کے جمع ہونے کی رفتار مالی سال 2014ء کی دوسری سہ ماہی میں کم ہو گئی۔

اس کے ہمراہ مالی سال 2014ء کی دوسری سہ ماہی میں آئی ایم ایف کو ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی بھاری ادائیگی اور سازگار شرح مبادلہ نے اس عرصے کے دوران سرکاری قرضے کے اسٹاک میں تھوڑی کمی کو ممکن بنایا۔

رپورٹ میں پاکستان کے قرضے کے خاکے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا کیونکہ اس کی ہیئت ترکیبی میں قلیل ترین میعادوں کی طرف تیزی سے رجحان بڑھا ہے۔

اس کی وجہ سے حکومت کے لیے اجرائے ثانی اور شرح سود کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

اگرچہ اسٹیٹ بینک اپنے اس نقطہ نگاہ پر قائم ہے کہ پاکستان کے ملکی قرضے کو ازسرنو متوازن کرکے طویل مدتی پیپر کی طرف لانا ضروری ہے تاہم مالی سال 2014ء کی دوسری سہ ماہی میں بہتری کا رجحان تھا جو تیسری سہ ماہی میں برقرار ہے۔

اس سہ ماہی میں حکومت نے پی آئی بیز کے ذریعے 105.6 ارب روپے حاصل کئے جو چار سہ ماہیوں بعد جمع کی جانے والی بلند ترین رقم تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ منڈی کے احساسات میں یہ تبدیلی گرانی کے گرتے ہوئے امکانات سے منسوب کی جا سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بازار میں شرح سود مزید بڑھنے کی توقع نہیں کی جا رہی۔

رپورٹ کے مطابق عمومی گرانی مالی سال 2013ء کی پہلی ششماہی کے 8.3 فیصد کے مقابلے میں مالی سال 2014ء کی پہلی ششماہی کے دوران اوسطاً 8.9 فیصد ہو گئی۔

گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت دسمبر 2013ء میں گر کر 9.2 فیصد رہ گئی جبکہ نومبر 2013ء میں یہ دو ہندسی ہو گئی تھی۔ مہنگائی میں کمی کا یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔

ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر آمد رقوم نہ ہونے اور آئی ایم ایف کو بھاری ادائیگیوں کے باعث آخر نومبر 2013ء تک دباؤ میں رہے تاہم دسمبر 2013ء میں صورت حال بہتر ہوئی جب آئی ایم ایف سے 554 ملین ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی دوسری قسط ملی اور اس ماہ جاری کھاتے میں فاضل دیکھا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں