مشرف کی چک شہزاد منتقلی کے روٹ پر دھماکہ

اپ ڈیٹ 03 اپريل 2014
فائل فوٹو—
فائل فوٹو—
مشرف کا قافلہ اس دھماکے سے پہلے گزرچکا تھا، اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔—فائل فوٹو اے ایف پی۔
مشرف کا قافلہ اس دھماکے سے پہلے گزرچکا تھا، اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔—فائل فوٹو اے ایف پی۔

اسلام آباد: پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے روٹ پر آج جمعرات کی صبح ایک بم دھماکہ ہوا ہے، تاہم اس میں کسی قسم کا جانی و مالی نقصان کی اطلاعات نہیں ملی ہے۔

ڈان نیوز ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے چک شہزاد جانے والے راستے میں فیض آباد پل کے قریب یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب وہاں سے سابق صدر کا قافلہ گزر چکا تھا۔

دوسری جانب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پرویز مشرف کو اب اے ایف آئی سی ہسپتال سے ان کے فارم ہاؤس چک شہزاد منتقل کردیا گیا ہے، جہاں سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کردیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چھ کلو گرام دھماکہ خیز مواد سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک پائپ میں نصب کیا گیا تھا۔

دھماکے سے جائے وقوعہ پر ایک فٹ گہرا گڑھا بھی پڑ گیا ہے۔

کیپٹل پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکے کا ہدف سابق صدر پرویز مشرف تھے، تاہم وہ اس واقعہ میں محفوظ رہے ہیں۔

سابق صدر مشرف کے راستے پر دھماکے کا مقدمہ تھانہ سیکرٹریٹ میں ایس ایچ او کی مدعیت میں ایکسپلوزیو ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔

سابق صدر کے فارم ہاؤس چک شہزاد کے اس روٹ پر پہلے بھی کئی مرتبہ دھماکہ خیز مواد برآمد ہوچکے ہیں، جنہیں پولیس نے اپنے قبضے میں لے کر ناکارہ بنا دیا تھا۔

کچھ عرصے پہلے وزارتِ داخلہ کی جانب سے ایک رپورٹ میں سابق صدر مشرف کے لیے ایک سیکیورٹی الرٹ جاری کیا گیا تھا۔

اس سیکیورٹی الرٹ میں کہا گیا تھا کہ مشرف پر حملے کے لیے اس روٹ کا استعمال کیا جاسکتا ہے جس راستے کو انہیں عدالت میں پیشی کے لیے لے جانے کے لیے استعمال کیا جائے۔

اس سکیورٹی الرٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اُن کی سکیورٹی پر تعینات اہلکار بھی اُن پر حملہ کرسکتے ہیں جس طرح سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر پر کیا گیا تھا۔

سیکیورٹی الرٹ کے جاری ہونے کے بعد سابق صدر کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کے موقع پر سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کرتے ہوئے اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت سے اے ایف آئی سی تک کے روٹ پر تقریباً دو ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا تھا۔

 پرویز مشرف پاکستان آنے سے قبل دبئی ایئرپورٹ پر اپنی اہلیہ صہبا مشرف کے ساتھ۔ — اے ایف پی
پرویز مشرف پاکستان آنے سے قبل دبئی ایئرپورٹ پر اپنی اہلیہ صہبا مشرف کے ساتھ۔ — اے ایف پی

خیال رہے کہ سابق صدر گزشتہ سال 11 مئی کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے 24 مارچ کو چار سال سے زائد عرصہ تک خود ساختہ جلا وطنی کے بعد واپس پاکستان آئے تھے اور اس وقت سے انہیں متعدد بار حملوں کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔

پاکستان روانگی سے قبل دبئی میں انہوں اپنی جان کو لاحق خطرات اور سیکیورٹی خدشات کا اظہار میڈیا سے بات کرتے ہوئے کیا تھا۔

دبئی میں آل پاکستان مسلم لیگ کے عہدے داروں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں مشرف نے بتایا تھا کہ سعودی حکام نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر انہیں پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا تھا۔

آج ہونے والا یہ واقعہ اس وقت ہوا ہے جب غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فردِ جرم عائد کی جاچکی ہے۔

پاکستانی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا جب ایک فوجی حکمران پر آئین کی خلاف ورزی کے الزام اور ایمرجنسی کے نفاذ پر فردِ جرم عائد کی گئی۔

یاد رہے کہ سابق صدر پر غداری کا مقدمہ چلانے کی کیے وفاقی حکومت نے گزشتہ سال نومبر میں خصوصی عدالت کو قائم کرنے کا فیصلہ تھا جس نے 24 دسمبر 2013 سے اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع نیشنل لائبریری میں قائم کیا گیا تھا۔

سابق صدر پرویز مشرف صدر پرویز مشرف کو رواں سال 2 جنوری کو اس وقت راولپنڈی کے اے ایف آئی سی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جب غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے راستے میں اچانک انہیں دل کی تکلیف محسوس ہوئی تھی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Rizwan Apr 03, 2014 07:37am
خدا خیر کرے۔ پرویز صاحب کا پیٹ کو ٹھیک ہے نا۔ اسہال تو نہیں ہو گیا؟
Israr Muhammad Apr 04, 2014 02:47am
ہر‏ ‏دفعہ‏ ‏ان‏ ‏کے‏ ‏جانے‏ ‏یا‏ ‏انے‏ ‏کے‏ ‏بعد‏ ‏دھماکہ‏ ‏ہوجاتا‏ ‏ھے‏ ‏لیکن‏ ‏سب‏ ‏کسی‏ ‏نقصان‏‏ ‏کے‏‏ ‏بعیر‏ ‏جوکہ‏ ‏بندہ‏ ‏کو‏ ‏سوچنے‏ ‏پر‏ ‏مجبور‏ ‏کرتا‏ ‏ھے‏ ‏حالانکہ‏ ‏دھماکوں‏ ‏والوں‏ ‏‏ ‏نے‏ ‏ ‏ف‏ائربندی‏ ‏ ‏کا‏ ‏اعلان‏ ‏کررکھا‏ ‏ھے‏ ‏ جیو والے افتخار صاحب نے بہت مایوس کیا ان کے سابقہ خیالات اور اج کی سو چ اپس میں بلکل میل نہیں گھاتے یہ درست ھے کہ سال کا مارشلا نومبر کے ایمرجنسی سے بڑا جرم تھا اور وہ بھی فوج نے ہی لگائی تھی اور مارشلا فوج ہی لگا سکتی ھے لیکن ھم یہ کیوں بھول جاتے کہ کے مارشلا کو اس وقت کی منتحب اسمبلی نے انڈوسٹ کیا تھا اور نومبر کے اقدام کو کوئی چتھری نہیں ملی تھی اب جب مقدمہ شروع کیا ھے تو اس کو چلناچاھیے حوا کچھ بھی ھو جائے سیاستدانوں کو کبھرانے کی ضرورت نہیں وہ کچھ نہیں کرسکتے اگر کسی کی یہ خواہش ھے کہ ان کے ساتھیوں پر بھی مقدمہ چلنا چاھیے تو ان کو اور کمانڈو صاحب کو کس نے روکا ھے عدالت کے سامنے بتائیں کہ فلاں فلاں میرے ساتھ تھے عدالت ان کو پکڑ لیگی اللہ اللہ حیر سلہ