بھٹوکا سیاسی ورثہ اور آج کی پیپلز پارٹی

04 اپريل 2014
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

نامور صحافی اوریانا فلاسی نے ذوالفقار علی بھٹو سے شکوہ کیا کہ ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ بھٹو پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ صبح ایک بات کرتے ہیں شام دوسری۔

جواباً بھٹو نے کہا؛

"سیاستدان کو ہر بار نئی بات کرنی چاہئے۔ تاکہ لوگ اس کی شخصیت کو بہ آسانی سمجھ نہ سکیں اور خواہ مخواہ اسکے منفی پہلو نہ ڈھونڈ پائیں۔ میں زیادہ لوگوں سے ملتا ہوں اور زیادہ پڑھتا ہیں اس لیے ہر بار میرے پاس نئی بات ہوتی ہے۔"

بھٹو کی کرشماتی اور پراسرار شخصیت کو اس سے بہتر لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

زندہ بھٹوایک معمہ تھے، ان کی پراسراریت جادوگر کی طرح تھی۔ یہ صورتحال ان کے مرنے کے بعد بھی رہی۔ ان کے انتقال کو چالیس سال ہوچکے ہیں۔ 'بھٹو فیکٹر' کیا ہے نہ یہ معلوم ہوسکا اور نہ ہی اسکو ختم کیا جاسکا۔

ملک کے وزیراعظم اور صدور اور بھی رہے ہیں۔ لیکن کسی کا اتنا گہرا اثر ملک کی سیاست اور سماجیت پر نہیں رہا۔ پاکستان کی سیاست پر برسہا برس سے بھٹو کی قدآور شخصیت چھائی رہی۔ آج چار عشروں کے بعد بھی سیاسی صف بندی 'بھٹو فیکٹر' کے حامی اور مخالف بنیادوں پر ہے۔

بھٹو وہ دو متضاد چیزیں ایک ساتھ لیکر چلتے تھے۔ انہوں نے سوشلزم کا نعرہ لگایا لیکن سوشلسٹوں کی نظر میں انہوں نے ہی اس کاز کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ انہوں نے ہاریوں اور کسانوں کی بات کی لیکن اپنے ساتھ وڈیروں کو ہی رکھا۔ جدید نظریے متعارف کراۓ لیکن مشرق وسطیٰ کے عرب بادشاہوں اور شیوخ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا۔

پاکستان کی سیاست، معیشت اور سماجیت میں ان کا کردار اور کنٹریبیوشن نہ بھلانے جیسا ہے۔ انہوں نے سماج کی بنیادوں میں کچھ ایسی چیزیں ڈالیں جن کو آسانی سے نکالا نہیں جاسکتا۔

جنرل ضیاء کے اقدامات کی طرح بھٹو کے اقدامات بھی دیرپا اور گہرے تھے۔ ضیا کے اقدام منفی نوعیت تھے۔ جبکہ بھٹو کے اقدامات مثبت نوعیت کے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ضیاء الحق اور ان کی باقیات کے تمام تر زور نے ان بنیادوں کو ہلا ضرور دیا لیکن جڑ سے نکال نہیں سکے ہیں۔

بھٹو ملک کے پہلا سیاستدان تھے جنہوں نے نچلی سطح تک سیاسی تحریک چلائی۔ اور عام آدمی تک پہنچے۔ سینئر صحافی وسعت اللہ خان نے حال ہی میں دور دراز قبائلی علاقوں میں ایک بیٹھک میں لگی ہوئی بھٹو کی تصویر کا ذکر کیا ہے۔ بیٹھک کے مالک نہ پیپلز پارٹی کے کارکن تھے اور نہ ہی ووٹر، اس نے یہ تصویر اس لیے لگائی تھی کہ بھٹو واحد سیاستدان تھے جو ان کے گاؤں میں آئے تھے۔ بھٹو کا آنا اس گاؤں میں ایک تاریخ بن گیا تھا۔ جس کو گاؤں والے سنبھال کر رکھنا چاہ رہے تھے۔

وہ عوام سے کس طرح سے رجوع کرتے تھے، اور عوام کے دلوں میں کس طرح جگہ بناتے تھے؟ اس سے متعلق کئی لوگوں کے پاس الگ الگ کہانی ہے۔

شملہ معاہدہ کے لیے جانے سے پہلے وہ سندھ کے دورے پر تھے۔ انہوں نے سانگھڑ، دادو وغیرہ میں عام جلسوں میں لوگوں کو ملک کی صورتحال بتائی اور ان سے مشورہ کیا کہ وہ اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے نئی دہلی جائیں یا نہ جائیں؟ وہ کوئی معاہدہ کرکے آئیں؟ یہ سیاسی کمیونیکیشن کی عجب اور شاید موثر مثال تھی۔ اسی طرح بھٹو نے جلسوں میں لوگوں سے رائے لی کہ بنگلادیش کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔

ایک اور دلچسپ واقعہ ٹھٹہ ضلع سے تعلق رکھتا ہے۔ بھٹو نے ستر کے انتخابات میں ٹھٹہ سے بھی انتخابات جیتے تھے۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے سجاول شہر میں جلسہ کیا اور پوچھا کہ ٹھٹہ والو بتاؤ آپ کو کیا چاہئے، میں آپ کو کیا دے سکتا ہوں؟ مجمع سے آواز آئی کہ ہمیں آغاشاہی بطور ڈپٹی کمشنر چاہئیں۔

آغا شاہی تب امور خارجہ کے مشیر تھے۔ انہوں نے بطور اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اپنی سول سروس کی ابتدائی مدت یہاں گزاری تھی۔ ان کے اچھے برتاؤ کی وجہ سے لوگ ان کی واپس بطور ڈپٹی کمشنر تقرری کا مطالبہ کررہے تھے۔

بھٹو نے ان کو بتایا کہ شاہی صاحب ان کے پاس امور خارجہ سنبھالے ہوئے ہیں لہٰذا انہیں وہاں سے فارغ کر کے ٹھٹہ میں ڈپٹی کمشنر نہیں لگایا جاسکتا۔

مجمع سے آواز آئی کہ سائیں اگر نہ دینا چاہ رہے ہو تو صاف بتا دو۔ بھٹو نے انکو سمجھایا کہ اگر شاہی صاحب کو ڈپٹی کمشنر بنا کر یہاں بھیجا تو ان کے امور خارجہ کا معاملہ چوپٹ ہوجائے گا۔

لوگوں کو یہ سن کراطمینان ہوا کہ ان کا فیصلہ کتنا صحیح تھا۔ جس آدمی کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ بھٹو صاحب کے خارجہ امور سنبھالے ہوئے ہیں۔ یعنی بھٹو کی اور ہماری سوچ میں کتنی یکسانیت ہے۔

بھٹو کے ایک ساتھی عبدالوحید کٹپر مرحوم نے ایک ملاقات میں بتایا کہ بھٹو دور میں انکے پاس سندھ میں چار محکموں کے قلمدان تھے۔ کٹپر کا ماننا تھا کہ بھٹو خود کرپٹ نہیں تھے اس لیے کسی کو کرپشن کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ چار محکمے ہونے کے باوجود ان کی آمدن اتنی نہیں تھی کہ وہ چار بچوں کو اچھی تعلیم دلاسکیں۔ انہوں نے وزیرتعلیم پیار علی الانا کو بچوں کی اسکالرشپ کی درخواست دی۔ الانا نے اعتراض کیا کہ وزیر کے بچوں کو اسکالرشپ نہیں دی جاسکتی، نہیں تو لوگ کہیں گے کہ وزراء اقرباء پروری کر رہے ہیں۔ اور ایسا دروازہ کھل جائے گا جس کے بعد سیلاب کو نہیں روکا جاسکے گا۔ الانا نے کٹپر کے بچوں کے اچھے اسکول میں تعلیمی اخراجات کا انتظام آغاخان ٹرسٹ سے کرا کر دیا۔

تب کرپشن شجر ممنوع تھا۔ چار محکموں کا وزیر اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے لیے پریشان تھا۔ دوسرا وزیر اقرباء پروری سے بھاگ رہا تھا۔ آج پیپلز پارٹی کے وزراء اور مشیروں کے بچوں کو جو غیرقانونی سہولیات حاصل ہیں ان کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ انکو تو چھوڑیئے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ہر ضلع میں جو سہولیات، فنڈ وغیرہ دیئے گئے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

آج اقرباء پروری تمام حدود عبور کر چکی ہے۔ وزراء، اسمبلی ممبرن کے بچے، بھائی بھتیجے براہ راست افیسرز گریڈ میں بھرتی کر کے انہیں چکنے عہدے دیئے گئے ہیں۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، وزراء اور اسمبلی ممبران کے باقی اولاد یا بھانجوں بھتیجوں کو علاقے میں بلدیاتی اداروں میں اہم پوزیشن کی ٹکٹ دی گئی ہے۔

کیا پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اور ان کے وزراء کسی عام اور غریب آدمی عزت کو دی ہے یا کسی انفرادی مسئلے کو بھی حل کیا ہے؟ آج کل وزیر سے ملاقات کے لیے لوگوں کو اسمبلی بلڈنگ، دفاتر اور بنگلوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور براہ راست جان پہچان نہ ہو تو بغیر ملاقات کے لوٹنا پڑتا ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کا نیا پروفائل اور نیا ریکارڈ ہے جو بن رہا ہے۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ اگر کسی کو بااثر آدمی ہاتھ نہیں آتا تو وہ وزیر سے ملنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔

ایک وہ زمانہ تھا، پیپلز پارٹی کے قائد اور ان کی سیاست اور عام لوگوں سے برتاؤ کا۔ آج پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت ضلع اور شہر کے پارٹی عہدیداروں سے ملنا میٹنگ کرنا دور کی بات صوبائی کونسل یا صوبائی کمیٹی کے ممبران سے بھی ملاقات نہیں کرتی۔ اس کی نہ یہ حکمت عملی ہے اور نہ اس کے پاس وقت، اور نہ ہی ترجیح۔

یوں عوام اور پیپلز پارٹی کے درمیان اور پارٹی کارکن اور قیادت کے درمیان فاصلہ اور خلاء بڑھ گیا ہے۔ اس خلا کا فائدہ مفاد پرست اور ٹھیکے پر کام کرنے والے اٹھا رہے ہیں۔ یوں چھوٹے کام سے کرپشن شروع ہے۔

چونکہ پارٹی قیادت کارکنوں اور عام آدمی سے بنا کر نہیں رکھتی، ان سے رابطہ مضبوط نہیں اسلئے اسے بھوتاروں (بااثر وڈیروں) پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جس کے ٹکٹ کے لیے میر، پیر، وڈیرے جوتیاں گھستے تھے آج انہی کی اوطاقوں پر پیپلز پارٹی کی قیادت جوتیاں گھس رہی ہے اور ان کے جائز ناجائز مطالبات تسلیم کر رہی ہے۔

پارٹی قیادت کے عام آدمی اور کارکن سے رابطے کی وجہ سے ان بھوتاروں کو پارٹی اور اس کی قیادت سے خوف رہتا تھا۔ لیکن اب پیپلز پارٹی بھی بھوتاروں کے حوالے ہے اور عام آدمی بھی۔

پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چند ماہ قبل کارکنوں کی ناراضگی اور پارٹی کو نئے سرے سے منظم کرنے کا ذکر کیا ہے مگر عملی طور پر تاحال کچھ نظر نہیں آتا۔ بلکہ ممکنہ مجوزہ بلدیاتی انتخابات کے لیے ڈھوند ڈھونڈ کر وڈیروں کو پارٹی میں لایا جا رہا ہے۔

ذاتی مفاد، ذاتی سہولت، ذاتی حلقہ انتخاب، ذاتی اثر رسوخ ترجیح حاصل کر گئے ہیں۔ پارٹی عام آدمی، لوگوں کی خدمت، سہولت یا ترقی یہ سب معاملات پیچھے دھکیل دیئے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وزراء، اسمبلی ممبران ذاتی طور پر ملازمتیں لینے، ذاتی ترقیاتی کام کرانے اور اپنے حلقہ انتخاب مضبوط کرنے میں مصروف ہیں، اجتماعی ایجنڈا کہیں بھی نظر نہیں آتا۔

بھٹو کا ورثہ یا لیگیسی تو وہ سب کچھ ہے جو انہوں نے کیا جسکا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ آج اسے ورثہ سمجھا ہی نہیں جارہا بلکہ اقتدار حاصل کرنے اور اسمبلی ممبر منتخب ہونے اور حکومت میں آنے کو ہی بھٹو کی لیگیسی قرار دیا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں