دہشت گردی کے متاثرین کی امداد اور بحالی

26 اپريل 2014
حکام کو اس بات کا احساس بہت دیر میں ہوا کہ دشت گرد حملوں کے شہری متاثرین بھی معاوضے کے مستحق ہیں-  فائل فوٹو۔۔۔۔۔۔۔
حکام کو اس بات کا احساس بہت دیر میں ہوا کہ دشت گرد حملوں کے شہری متاثرین بھی معاوضے کے مستحق ہیں- فائل فوٹو۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد فروٹ مارکیٹ پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے پر جاری بحث نے ایک بار پھر دہشت گردی کے شہری متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے ایک مؤثر اور منصفانہ طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے کہ معاملے کے اس پہلو کے حوالے سے بہت کم کہا گیا ہے-

پاکستان میں دہشت گردی کی لہر کا آغاز ہونے کے ایک عرصے بعد تک، ریاست نے صرف سیکورٹی اداروں کے افراد ہی کو امداد کا مستحق جانا- فرض کی ادائیگی کی جانیں قربان کرنے والے اہلکاروں اور افسران کے خاندانوں کو نقد معاوضے کی ادائیگی کی گئی اور چند کیسوں میں تو ہلاک ہونے والوں کے بچوں کے تعلیمی اخراجات اور انہیں نوکریاں دینے کا بھی وعدہ کیا گیا-

ایسا کرنا قانون نافذ کرنے والی فورسز کی قربانیوں کو تسلیم کرنے اور ان کے حوصلے برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا- حکام کو اس بات کا احساس بہت دیر میں ہوا کہ دشت گرد حملوں کے شہری متاثرین بھی معاوضے کے مستحق ہیں- لیکن یہ سب ایڈ ہاک بنیادوں پر کیا گیا-

اس بات پر کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ دہشت گردی کے سویلین متاثرین کو امداد کی ضمانت دینے کی خاصی بڑی حد تک سیکورٹی اہلکاروں سے زیادہ ضرورت ہے- قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خدمات انجام دینے والے اپنی ملازمتوں سے وابستہ خطرات سے آگاہ ہیں- ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو لاحق خطرات کا سامنا کرنے کیلئے ٹرینڈ ہوں اور ان میں سے چند کو (گو کہ ناکافی سہی) لیکن حفاظتی لباس بھی مہیا کئے جاتے ہیں- دوسری طرف دہشت گرد حملوں کے متاثرین تو اکثر و بیشتر بے خبری اپنے کاموں کے دوران، یا اپنے بنا حفاظت گھروں میں نشانہ بنتے ہیں-

شہری آبادی کو دہشت گردی کی کارروائیوں سے اپنی جائیداد کا بھی خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے یا پھر انہیں اس وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے ہیں کہ انتظامیہ ان کی حفاظت نہیں کر سکتی- شہریوں کا ریاست پر ان کی حفاظت کرنے کی صلاحیت پر اعتماد برقرار رکھنا کسی بھی طرح ریاست کے ملازم کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت سے کم نہیں-

بلوچستان حکومت اپنی ذمہ داری قبول کرنے میں برتری لینے کے لئے کریڈٹ کی مستحق ہے تا کہ "دہشت گردی کی کارروائیوں کے سویلین متاثرین کی بروقت شناخت اور امداد فراہم کی جائے؛ امداد، صحت کی دیکھ بھال اور بحالی کے لئے ریاست کی مدد حاصل کرنے کے لئے سویلین متاثرین کے حق کو تسلیم کیا جائے؛ اس طرح کی مدد کے لیے مناسب اور مسلسل فنڈز کا انتظام کیا جائے؛ دہشت گردی کی کارروائیوں میں عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان سے باخبر رہنے اور ان کی تحقیقات اور تجزیہ کرنے کے لئے ایک مؤثر طریقہ کار وضع کیا جائے"-

اس کا آغاز گزشتہ سال بلوچستان سویلین وکٹمز آف ٹیررازم (ریلیف اینڈ ریہبلیٹیشن) آرڈیننس کی تشہیر سے ہوا اور جس کے بعد اس سال اس حوالے سے نیا ایکٹ آیا-

یہ قانون "سویلین متاثرین" کی ایک کافی وسیع تعریف پیش کرتا ہے یعنی "ہر وہ شخص، جو کہ دہشت گرد نہیں یا آن ڈیوٹی قانون نافذ کرنے والے ادارے کا اہلکار نہیں، اگر کسی دہشت گرد کارروائی کے نتیجے میں اسے جسمانی یا جائیداد کا نقصان پہنچے، متاثرہ شخص کی موت ہونے کی صورت میں اس کی بیوی یا شوہر، یا ان کے غیر موجود ہونے کی صورت میں اس کے بچوں، والدین یا دیگر بہن بھائی جو بھی اس کے قانونی وارث ہوں، سویلین متاثرین کے زمرے میں آئیں گے"-

یہ ایکٹ حکومت کی جانب سے 'سویلین متاثرین' کے لئے گرانٹ کی شکل میں امداد کے استحقاق کو تسلیم کرتا ہے- امداد اور بحالی کی اس اسکیم میں بنیادی کردار "نوٹیفائڈ افسر" کا ہے جو کہ نامزد ہونے کی صورت میں کسی ضلع کا پرنسپل انتظامی افسر بھی ہو سکتا ہے- یہ "نوٹیفائڈ افسر" اس بات کا تعین کرے گا کہ متاثرین کس امداد اور بحالی کے مستحق ہیں اور حکومت اس حوالے سے مطلوبہ فنڈز مہیا کرے گی- اس مقصد کے لئے صوبائی حکومت علیحدہ سے ایک اسپیشل فنڈ قائم کرے گی اور اسے برقرار رکھے گی-

کم از کم امداد کا پیمانہ شیڈول میں دیا گیا ہے- موت کی صورت میں دس لاکھ- سنگین نوعیت کے زخمیوں کے لئے پانچ لاکھ، دیگر زخمیوں کیلئے ایک لاکھ (جب کہ زخمی کم از کم دو ہفتے تک کام کاج کرنے کے قابل نہ ہو)، کسی رہائشی یونٹ یا کاروباری اسٹیبلشمنٹ کی مکمل تباہی کی صورت میں پانچ لاکھ، جزوی تباہی کی صورت میں ایک لاکھ اور اسی طرح گاڑیوں اور مویشیوں کے نقصان کے حوالے سے بھی مختلف پیمانے ہیں-

بحالی کی اسکیم میں، حکومت کے خرچے پر دشت گرد کارروائیوں کے متاثرین کے مکمل علاج، متاثرین کے خاندانوں کیلئے ایک متعین عرصے تک ماہانہ گرانٹ، متاثرین کی تعلیم اور سویلین متاثرین اور اس کے خاندان کے افراد کو مسلسل علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کو مدنظر رکھا گیا ہے-

یہ قانون واضح طور پر تمام متاثرین سے یکساں سلوک کا وعدہ کرتا ہے اور کسی بھی سویلین متاثرہ شخص کے ساتھ عمر، صنف، مذہب، نسل، رنگ یا رہائش کے علاقے کی بنا پر امتیاز برتنے کی ممانعت کرتا ہے- "نوٹیفائڈ افسر" کے فیصلے کے خلاف کمشنر کے سامنے اپیل کی جا سکتی ہے جس کا فیصلہ حتمی ہو گا-

بدقسمتی سے، گزشتہ سال دہشت گردی کے متاثرین کی امداد کے لئے قانونی شرائط وضع کرنے کے باوجود، حکومت بلوچستان اس پر عملدرآمد کے معاملے میں پیچھے ہے- بتایا جاتا ہے کہ قوانین کا نفاذ اب تک نہیں کیا گیا- بعض صورتوں میں امداد، ایکٹ کے شیڈول میں درج سائز کے مطابق گرانٹ، فراہم بھی کی گئی ہے، تاہم حکومت / حکام کی طرف سے لئے جانے فیصلوں کے حوالے سے سمجھا جا رہا ہے کہ انہیں صوابدیدی اور/ یا ایڈ ہاک بنیادوں پر لیا گیا-

اس سے پوری اسکیم کے متنازعہ بن سکتی ہے- حکومت اور دہشت گردی کے متاثرین کیلئے یہی بہتر ہو گا کہ حکومت اس قانون کے نفاذ کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کرے جس میں خصوصی طور پر اسپیشل فنڈ کے قیام، تمام ضلعوں میں "نوٹیفائڈ افسران" کی نامزدگی اور اب تک داخل کئے گئے اور نبٹائے گئے کلیمز کی نوعیت شامل ہوں-

اس موضوع پر سب سے پہلے قانون کے طور پر، بلوچستان ایکٹ پر عملی تجربات کی روشنی میں نظر ثانی ہونا چاہئے- ان صوبائی حکومتوں کو، جو انسانی اور مادی وسائل کے حساب سے بلوچستان حکومت سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں، زیادہ جامع قوانین وضع کرنے چاہئیں جن میں امداد کے طریقہ کار کو زیادہ آسان بنانے کے علاوہ بہتر اور جامع بحالی کے پروگرام اور ان کا آسان طریقہ کار وضع ہونا چاہئے-

کسی بھی صورت میں، یہ دیگر صوبے اپنے شہریوں کے حقوق کے ذمہ دار محافظ کے طور پر ا[نی ساکھ کی قیمت پر دہشت گردی کے شہری متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے ضروری فریم ورک کی تشکیل میں تاخیر کر رہے ہیں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں