یورپی پابندیوں کا نیا ہدف روسی فوج اور انٹیلی جنس
برسلز : روس کی مسلح افواج کے سربراہ اور فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ ان پندرہ افراد میں شامل ہیں جنہیں یورپی یونین کی طرف سے یوکرین بحران کے باعث تازہ پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
آرمی چیف جنرل ویلری گیرسیموو اور ملک کے نائب وزیر دفاع جنہیں یورپی یونین نے پابندی کی آفیشل لسٹ میں شامل کیا ہے ان کے ساتھ انٹیلی جنس ادارے جی آر یو کے ڈائریکٹرلیفٹیننٹ جنرل آئی گور سرگن بھی شامل ہیں۔
انہیں مشرقی یوکرین میں جی آر یو افسران کی سرگرمیوں کے حوالے سے نشانہ بنایا گیا ہے انہیں یوکرین سرحد پر بڑے پیمانے پر روسی فوج کی تعیناتی اور تنازعے کی شدت کو کم کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
کرئیمیا سے الحاق اور مشرقی یوکرین میں بد امنی پر یورپی یونین نے تازہ ترین فہرست میں اڑتالیس لوگوں کے اثاثے منجمد اور سفر پر پابندیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بائیس دیگر یوکرینیوں کے اٹھائیس ملکوں میں اثاثے منجمد کر دیئے گئے ہیں اوران پر عبوری یوکرینی حکومت کے عہد میں دھوکہ دہی اور غبن کی تحقیقات کی جا رہی ہیںَ۔
دوسری جانب ماسکو نے یوکرینی بحران پر یورپی یونین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی راہ پر چل پڑے ہیں۔
روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے بجائے کہ گروپ کو جنوب مشرقی یوکرین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ملک کے مستقبل پر لائحہ عمل پر بات چیت کرنی چاہیئے ہمارے ساتھی امریکی اشاروں پر روس کیخلاف عمل کررہے ہیں۔
روس کی سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوستی کے مطابق نائب وزیر خارجہ گرگوری کراسن نے کہا ہے کہ پابندیاں بالکل مخالف اقدام ثابت ہوں گی اور اس پر انہیں ( یورپی یونین ) کو شرم آنی چاہئے۔
مغرب کی جانب سے روس پر یہ پابندیاں 17 اپریل کو اس بحران کے خاتمے کے سلسلے میں جنیوا میں کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کی صورت میں لگائی گئی ہیں۔