میڈیا، ریاست، اخلاقیات اور مفادات

30 اپريل 2014
کیا ایک صحافی یا اینکر پرسن کو کسی ریاستی ادارے یا جہادی تنظیم کے آلہ کار کا کردار ادا کرنا چاہیے؟
کیا ایک صحافی یا اینکر پرسن کو کسی ریاستی ادارے یا جہادی تنظیم کے آلہ کار کا کردار ادا کرنا چاہیے؟

نائن الیون کے بعد جب سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنا ہے عام شہریوں سمیت وکیل، ڈاکٹر اور صحافی اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پچھلے چودہ سالوں میں صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ جنرل محمود علی درانی کے مطابق؛

"پاکستان ایک جنگل بن چکا ہے جہاں روزانہ سینکڑوں لوگ قتل ہو رہے ہیں"۔

ایک (انتہائی) محتاط اندازے کے مطابق اب تک اس جنگ میں سیکیورٹی فورسز کے پانچ ہزار جبکہ بیس ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔

قیام سے ہی پاکستان صحافیوں کے لیے کوئی بہتر ملک نہیں رہا۔ جس ریاست کا بیانیہ ہی جہادی ہو تو پھر اس میں روشن خیال صحافی، لکھاری یا دانشور یا سیاسی کارکنوں کی بجائے ان کی جگہ ڈنڈا بردار فورس لے لیتی ہے جو اپنا نظریہ نافذ کرتی ہے اور طالبان اسی کا تسلسل ہیں۔

صحافیوں نے جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کی خاطر ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھوئے اور قید و بند کا سامنا بھی کیا۔ امیر المومنین جنرل ضیاء کے دور میں تو سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی کوڑے مارنے کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ لیکن افغان جہاد کی بدولت اب اتنی تبدیلی آچکی ہے کہ کسی جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے ٹارگٹ کلنگ زیادہ بہتر سزا بن چکی ہے۔ جس کا عملی مظاہر ہ پورے ملک اور خاص کر بلوچستان میں ہورہا ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کے قتل ہونے کی کئی وجوہات ہیں؛

روشن خیال اور ترقی پسند تو ہمیشہ سے ہی عتاب کا شکار رہے ہیں۔ لیکن اب نسلی بنیادوں اور فرقہ وارانہ تعلق کی بنا پر بھی صحافی قتل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ طالبان کے مخالف ہونے کی وجہ تو عام ہے مگر اب طالبان کا حامی ہونا بھی قتل کی وجہ بن گئی ہے۔

کچھ صحافیوں کا قتل بریکنگ نیوز کے کلچر کی وجہ سے بھی ہوا۔ بی بی سی کے ایک تجزیے کے مطابق پاکستان میں بنیادی طور پر الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹرز اور کیمرہ مین کی کوئی تربیت نہیں کی جاتی کہ جنگ یا فساد زدہ علاقوں میں کیسے رپورٹنگ کرنی چاہیے۔ لہذا ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز کے کلچر کی وجہ سے کئی صحافی و کیمرہ مین پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے منع کرنے کے باوجود اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں کافی مضحکہ خیز قسم کی رپورٹنگ بھی دیکھنے کو ملتی ہے، مثلاً خود کش حملے کے بعد زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جارہا ہوتا ہے کہ رپورٹر اور کیمرہ مین ان سے یہ پوچھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ "یہ حادثہ کیسے ہوا؟ بم کیسے پھٹا؟ کیا آپ نے کسی مشکوک فرد کو دیکھا تھا؟ ۔۔۔"

سلیم شہزاد شاید پہلے صحافی تھے جن کو طالبان کے ساتھ تعلق کی بنا پر قتل کیا گیا۔ طالبان سے تعلق کی بنا پر ہی انہوں نے کئی انوسٹی گیٹو سٹوریز لکھیں اور ان کی کتاب بھی دنیا بھر میں مقبول ہوئی۔

اب اگر آپ کا طالبان سے گہرا تعلق ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ آئی ایس آئی کے مفادات کو زک پہنچائیں۔ سلیم شہزاد کے بے ہیمانہ قتل کے بعد ایک نئی اصطلاح سننے میں آئی کہ ان کی موت کی وجہ ان کا ریڈ لائن عبور کر نا تھا۔ انہیں مختلف "حلقو ں" کی جانب سے بار بار تنبیہہ بھی کی گئی تھی کہ طالبان سے متعلق کچھ حساس معلومات کو منظر عام پر نہ لائیں جس سے تفتیش متاثر ہو سکتی ہے مگر وہ باز نہ آئے اور………...

طالبان کے متعلق بھی یہ بات سننے میں آتی ہے کہ جب وہ ریڈ لائن عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سیکیورٹی ادارے ان کے خلاف کاروائی کر کے ان کی اوقات یاد دلا دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ "ریڈ لائن" ہے کیا اور اس کا تعین کون کرتا ہے؟

کچھ کے مطابق یہ سیلف سنسر شپ ہے جو "سمجھ دار" کالم نگاروں، بلاگرز اور اینکر پرسنز کا مائنڈ سیٹ بن چکی ہے۔

یہ درست ہے کہ صحافی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ وہ دائیں یا بائیں بازو کی سیاست میں کسی ایک کی سائیڈ لیتا ہے اور کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان جس مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے اس میں میڈیا اور اس کے جہادی دانشور وں کا بہت بڑا حصہ ہے جنہوں نے جمہوری قوتوں کے مقابلے میں غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا اور ان کے غیر قانونی اقدامات کے جواز مہیا کیے۔

انتہا پسندی کے خلاف بولنے والوں کو بے دھڑک امریکی، یہودی اور ہندوستانی ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے اور اگر "گستاخ" پھر بھی باز نہ آۓ تو مین سٹریم میڈیا تک رسائی ہی ختم کر دی جاتی ہے۔ ایک کالم نویس اپنے تجزیے میں طالبان کی پالیسیوں کی حمایت کرنے میں تو آزاد ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے سے مخالف سوچ رکھنے والے کو خوفناک نتائج کی دھمکیاں دی جائیں اور فتوے جاری کیے جائیں۔

جب بھی کسی روشن خیال صحافی پر طالبان کی طرف سے حملہ ہو تو جہادی دانشور چپ سادھ لیتے ہیں بلکہ جواز گھڑتے ہیں لیکن جب انہیں کوئی دھمکیاں دے یا ان پر حملہ کرے تو 24 گھنٹے رونا دھونا شروع کر دیا جاتا ہے۔

ابھی چند ہفتے پہلے ہی رضا رومی جیسے بے ضرر صحافی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئے مگر ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا۔ بے ضرر اس لیے کہ وہ اپنی رائے کسی پر زبر دستی ٹھونستے نہیں اور نہ ہی کوئی فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ مگر کسی بھی جہادی دانشور کی طرف سے رضا رومی پر حملے کی مذمت نہ کی گئی۔ ہاں جب انصار عباسی کو دھمکیاں ملتی ہیں تو پھر سب کو آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے یاد آجاتا ہے۔ طالبان کے ترجمان بھی کہتے ہیں کہ حامد میر نے ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کیا۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آئی ایس آئی اس خطے میں پراکسی وار لڑ رہی ہے۔ اس نے پہلے افغان مجاہدین کی سرپرستی کی اور اب طالبان کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ ہم اچھے طالبان اور برے طالبان کی تخصیص بھی کرتے ہیں۔

حامد میر کے طالبان سے تعلقات کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور ظاہر ہے یہ تعلقات خفیہ ایجنسیوں کی معاونت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جس طرح ہمارے پریس اور الیکٹرونک میڈیا نے طالبان کو ہیرو بنایا اور ان کا سوفٹ امیج پروموٹ کیا اس میں حامد میر سرفہرست نظر آتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسے لوگ درحقیقت پاکستان کی ترقی پسندانہ سماجی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو غلط نہ ہوگا۔

حامد میر رپورٹنگ اور ٹی وی اینکر کے علاوہ "ایک کاری گر" تجزیہ کار بھی ہیں۔ وہ اپنے تجزیوں میں غیر محسوس طریقے سے پاکستان کے جہادی بیانیے کو فروغ دیتے رہے ہیں جس کا شکار اب وہ خود ہیں۔

چلیں جہادی بیانیے کو فروغ دینے کو آزادی اظہار رائے کہہ لیں۔ مگر کیا ایک صحافی یا اینکر پرسن کو کسی ریاستی ادارے یا جہادی تنظیم کے آلہ کار کا کردار ادا کرنا چاہیے؟

خالد خواجہ کے متعلق ان کی رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کیا ترجمان یا مشیر ہونے کے ناطے ان سے اختلاف کرنے والے کو اپنے کالم میں ہی خطر ناک نتائج کی دھمکیاں دینا درست ہے؟

اگر کوئی جنرل مشرف کی حمایت کرتا ہے یا علامہ اقبال پر تنقید کرتا ہے تو اسے کفر و اسلام کی جنگ قرار دینے کی بجائے اس کا جواب دلائل سے دیا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ حامد میر نے ایسا نہیں کیا۔ اگر کوئی کسی کی وفاداری میں بہت اگے چلا جائے تو پھر ایسے واقعات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ حامد میر ان قوتوں کی حمایت کرتے رہے ہیں جو بندوق کے زور پر اپنی رائے ٹھونستے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے اس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ؛

"اگر کوئی بچہ اپنے والدین کی نافرمانی کرے گا تو اسے سزا تو ملے گی۔۔۔"

میر ی دعا ہے کہ حامد میر جلد از جلد صحت یاب ہوں اور امید کرتا ہوں کہ صحت یابی کے بعد جب وہ کالم لکھیں تو اختلاف کرنے والوں کو ٹیلی فون پر دھمکیاں نہیں دیں گے اور اختلاف کرنے والے "نام نہاد روشن خیالوں" پر امریکی، اسرائیلی، ہندوستانی 'ایجنٹ'، 'اسلام مخالف' اور 'غدّار وطن' کے فتووں سے پرہیز کریں گے۔


محمد شعیب عادل لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ نیا زمانہ کے ایڈیٹر ہیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

فہیم Apr 30, 2014 12:19pm
آج جب مختلف تنظیمیں عسکری اداروں کے ساتھ ’’محبت‘‘ میں جیو کے خلاف نعرہ زن ہیں تو یہ اس ابلاغی ادارے کے لئے ایک لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ وہ اپنا بے رحمانہ احتساب کرے کہ اِن میں سے کتنی تنظیموں کو اُس نے صحافتی اُصول نظرانداز کرکے تجارتی مقاصد کے تحت اپنے اخباری صفحات پر پروان چڑھایا؟اُس نے کہاں کہاں کن کن تنظیموں کی کس کس کے ایماء پر پرورش کی؟
Sharjeel Khan Apr 30, 2014 03:09pm
Hamid's ordeal is a decoy, he should be fired from GEO. he is all but democratic. Dramas like these will continue until the Afghan game is over. its becoming interesting day by day.
Taqqi syed Apr 30, 2014 04:05pm
بہت اعلی
عظیم حسن May 01, 2014 12:29am
آپ کا سب سے پہلا نقطہ انتہائی اہم ہے میرے محبوب قائد جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں جو سب سے برا کام ہوا وہ یہ کہ پاکستان کا نام بدل دیا گیا یعنی اس کا نام اسلامی جمہوریہ باکستان رکھ دیا گیا بعد ازاں وہ خود بھی اسی غلطی کا شکار ہوے دوسری بات آپ جیسے صحافیوں سے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اب آپ لوگوں کو کھلے الفاظ میں بتائیں کہ آئی ایس آئی کا طالبان سے کیا تعلق ہے یہ اچھے اور برے طالبان کون ہیں پاکستان آرمی اور سیاستدانوں کا اصل جھگڑا کیا ہے. افغان طالبان کے مقابلے میں پنجابی طالبان بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور یہ ریڈ لائیں اصل میں ہے کس بلا کا نام. ایک اہم بات جس کا ہر کوئی ناجائیز فائدہ اٹھاتا ہے خواہ سیاستدان ہو فوج ہو عدلیہ ہو علما ہوں یا پھر صحافی ہوں وہ ہے لفظ قومی مفاد . ایک ایسی ترکیب جو آپ کو یہ موقعہ فراہم کرتی ہے کہ اپ اس کی آڑ میں جس کو چاہیں غدار کہیں اور جس کو چاہیں محب الوطن قرار دے دیں اور ہر ایک کا محب الوطن دوسرے کا غدار بنتا جا رہا ہے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ لوگ کمپیں چلائیں اور اداروں کو مجبور کریں کہ اس قومی مفاد کی ڈیفینشن کردیں اور اس کو عام آدمی تک پہنچا دیں تاکہ لوگوں کو صیحح اندازہ ہو سکے اصل میں غدار کون ہیں اور اگر دو فریقین یا اداروں کی جنگ ہو رہی ہو تو ضروری نہیں کہ ان دونوں میں سے ایک ضرور محب الوطن ہی ہوگا یہ لڑائی دو مفاد پرست گروہوں کے نام پر بھی ہو سکتی ہے اور دونوں عوامی حمایت حاصل کرنے کی خاطر قومی مفاد کا نام لے رہے ہوں . آپ نے حامد میر کے طالبان اور آئی ایس آئی کے ساتھ تعلقات کی بات کی کچھ لحاظ رکھا جناب امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ک
Israr Muhammad May 02, 2014 12:19am
@عظیم حسن: اینڈ‏ ‏گيم‏ ‏شروع‏ ‏ہوچکا‏ ‏ھے‏ اور‏ ‏انکی‏ ‏مرضی‏ ‏اور‏ ‏منشا‏ ‏کے‏ ‏مطابق‏ ‏وقار‏ ‏واللوں‏‏ ‏کی‏ ‏توقعات‏ ‏کے‏ ‏برعکس‏ ‏ ‏ طالبان‏ ‏کی‏ ‏بات‏ ‏تو‏ ‏ ‏سب‏ ‏جانتے‏ ‏ھیں‏ ‏کہ‏ ‏طالبان‏ ‏کون‏ ‏‏ ‏ھیں‏‏ ‏اور‏ ‏یہ‏ ‏کس‏ ‏کا‏ ‏اساسا‏ ‏ھے‏ ‏ ‏اس‏ ‏کیلئے‏ ‏مجھے‏ ‏قاضی‏ ‏حسین‏ ‏احمد‏ ‏مرحوم‏ ‏یاد‏ ‏ارہے‏ ‏ھیں‏ ‏جسکا‏ ‏ایک‏ ‏فقرہ‏ اس‏ ‏حوالے‏ ‏سے‏ ‏‏بہت‏ ‏مشہور‏ ‏ھوا‏ ‏تھا‏ ‏لیکن‏ ‏وہ‏ ‏لکھ‏ ‏نہیں‏ ‏سکتا‏ ‏کیونکہ‏ ‏میں‏ ‏ایک‏ ‏بہت‏ ‏کمزور‏ ‏اور‏ ‏ڈرپوک‏ ‏انسان‏ ‏ھوں‏‏ ‏افعانستان‏ ‏میں‏ ‏سب‏ ‏کچھ‏ ‏درست‏ ‏ھورھا‏ ‏ھے‏ ‏جسکا‏ ‏وقار‏ ‏والوں‏‏ ‏کو‏ ‏ادراک‏ ‏ھے‏ ‏لیکن‏ ‏افعان‏ ‏اس‏ ‏دفعہ‏ ‏دھوکہ‏ ‏نہیں‏ ‏کھائنگے‏ ‏اور‏ ‏وہ‏ ‏سمجھتے‏ ‏ھیں‏ ‏کہ‏ ‏ان‏ ‏کی‏ ‏بقاء‏ ‏کس‏ ‏میں‏ ‏ھے‏ ‏60%ووٹ‏ ‏کوئی‏ ‏مزاق‏ ‏نہیں‏ ‏افعانستان‏ ‏جیسے‏ ‏ملک‏ ‏میں‏ ‏
Israr Muhammad May 02, 2014 05:51pm
1990کے بعدسے دنیا کی سیاست بلکل بدل گئی ھے ملکی سطح پر بھی سیاست میں بہت زیادہ تبدیلی اچکی ھےماضی کی‎ ‎‏ ‏سیاست دو دھڑوں میں تقسیم تھی ایک دھڑا ترقی پسند دوسرا دھڑا روایت پسند مکر اب سیابست میں وہ تقسیم مکمل حتم ہوچکی ھے اب تمام سیاست ایک ھی طرز کی ھور ھی ھے 2000سے پہلے مزہبی انتہا پسندی کی چند گملۓ موجودھوا کرتے تھے جن کواسٹیبلشمنٹ اپنی ضرورت کے وقت استعمال کیا کرتے تھےلیکن2000 کے بعد انکی فصل تیار کی گئی جو اب سیاست میں ھما وقت موجود رہتی ھے اور سیاست میں انکا ایک محسوس مقام ھےجس کی وجہ سے سیاست میں انتہا پسندی عام سی بات ھے اپ کی یہ درست ھے کہ اب وقت اگيا ھے کہ اس خودساختہ عظیم ترقومی مفادات کا فیصلہ ھونا چاھیے کہ اس کی تعریف کیا ھے اور یہ ھےکیا چیز اور اطلاق کون اور کیسے کریگا اور کن پر لاگو ھوگا اور کون استثنی میں دوسری بات یہ کہ سرح لائن کی بھی وضآخت لازمی ھے کہ یہ کہاں شروع ھوتی ھے اور یہ بھی طے کرنا انتہائی اہم ھے کہ ریڈ لائن کا تعین کون کرے گا پارلیمنٹ وزیراعظم وزارت دفاع وزارت داخلہ یا کوئی "اور" یہ طے کرنا بہت ضروری ھےتاکہ ہر ایک کو اپنے اپنے ریڈ لائن کا معلوم ھو تاکہ کوئی ریڈ لائن کی وجہ سے اپنی جان اور کوئی مفادات کی حلاف پر ملک دشمن یا عدار نہ بن جائے