امن جرگہ: کامیاب مذاکرات کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 02 مئ 2014
طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق پشاور میں امن جرگے سے خطاب کررہے ہیں۔—فوٹو اے پی۔
طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق پشاور میں امن جرگے سے خطاب کررہے ہیں۔—فوٹو اے پی۔

پشاور: پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ روز منعقدہ ایک امن جرگے می حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں الجھنوں کو ختم کرنے کے لیے جنگ بندی کو بحال کرنے پر زور دیا گیا۔

امن جرگہ کا انعقاد جمعیت علمائے اسلام ف فاٹا کی جانب سے جمعرات کو پشاور کے نشتر ہال میں کیا گیا۔

جرگے میں جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا سمیع الحق، حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کی جانب سے نامزد کردہ کمیٹی کے رکن اور جماعتِ اسلامی کے صوبائی چیف پروفیسر محمد ابراہیم خان، طالبان کمیٹی کے کوارڈینیٹر مولانا یوسف شاہ، سابق ایم این اے شاہ عبدالزیز اور جماعتِ اسلامی فاٹا کے چیف صاحبزادہ ہارون الرشید نے شرکت کی اور اس موقع پر خطاب بھی کیا۔

جرگے کے حوالے سے جاری ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ مصالحتی عمل میں حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے اہم کردار کی تعریف کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز جن میں حکومت طالبان او فوج شامل ہیں، کہ وہ مذاکرات کو کامیاب بنائیں، کیونکہ عوام ان مذاکرات سے امن کی توقعات وابسہ کرے ہوئے ہیں۔

جرگے میں آئینِ پاکستان کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پارلیمنٹ اور کل جماعتی کانفرنس کے ذریعے امن کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ فاٹا کے قبائلی عوام کے ویفیئر کے لیے قانونی اور اقتصادی اصلاحات کرے۔

جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ امن کی بحالی کا انحصار وفاقی حکومت پر ہے جو جب چاہیے اس 'گیم' کو ختم کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام نے کبھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور خلاف ورزی کرنے والے اصل لوگ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔

'اصل دہشت گرد وہ ہیں جو کرپشن، لوٹ مار اور فراڈ میں ملوث ہیں جو قیمتوں میں اضافے، بے روز گاری ، اور لاقانونیت اور غربت کی وجہ ہے'۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ پگڑی پہنے ہوئے ہیں یا جن کی داڑھی ہے وہ دہشت گرد نہیں، بلکہ امریکہ اصل دہشت گرد ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی عوام ملک کی سرحدوں کے محافظ ہیں اور مذاکرات میں انہیں اعتماد میں لینا زیادہ اہم ہے۔

جماعتِ اسلامی کے امیر کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے اسلامی نظام کا مطالبہ درست ہے۔

اسی دوران تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب نامزد کردہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان اور فوج ہی اصل فریق ہیں اور انہیں چاہیے کہ وہ براہ راست مذاکرات کریں۔

قبائلی جرگے میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان اصل مذاکرات ہونے چاہیں۔

جرگے میں حکومت، فوج اور طالبان سے امن میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی اپیل کی گئی۔

جرگے سے خطاب میں طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ یہ واضح کیا جائے کہ مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہیں یا نہیں۔ مولانا سمیع الحق نے کہتے ہیں ٹال مٹول بند کرکے مذاکرات میں رکاوٹیں دور کی جائیں۔

جرگے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے نامزد طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ قبائلی عوام جنگ نہیں، امن چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'قبائل کی کوششوں سے ہی انگریز یہاں سے جانے پر مجبور ہوئے ہیں'۔

جرگے سے خطاب میں انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ مذاکراتی عمل میں طالبان آئین تسلیم کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی آزادی میں قبائلیوں کا بڑا اہم کردارہے اور ملکی دفاع میں قبائلی سب سے آگے ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ قبائلیوں کو ماضی میں ان کے قانونی حقوق سے محروم کیا جاتا رہا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ غاروں میں بیٹھے جنگجوؤں سے رابطہ ہوتا ہے اور اسلام آباد میں جو لوگ ہیں ان سے کوئی رابطہ نہیں کرتا، اگر ایسی ہی صورتحال رہی تو ہمیں لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑے گا۔

انہوں طالبان کی قیادت سے اپیل کی کہ وہ مذاکرات میں صبر و تحمل سے کام لیں۔

تبصرے (0) بند ہیں