بچھڑے بھائی

بنگلہ دیش جغرافیائی اور نسلی اعتبار سے ہم سے اتنا زیادہ دور تھا اسے الگ ہونا ہی تھا، چاہے وہ 1971 میں نہ ہوتا تو چند برس بعد ہوتا لیکن ہوتا ضرور- پچھتاوا بس اتنا ہے کہ یہ جدائی زیادہ مہذب انداز میں بھی ہو سکتی تھی-
بنگلہ دیش جغرافیائی اور نسلی اعتبار سے ہم سے اتنا زیادہ دور تھا اسے الگ ہونا ہی تھا، چاہے وہ 1971 میں نہ ہوتا تو چند برس بعد ہوتا لیکن ہوتا ضرور- پچھتاوا بس اتنا ہے کہ یہ جدائی زیادہ مہذب انداز میں بھی ہو سکتی تھی-

بنگلہ دیش اور پاکستان دو بھائیوں کی طرح ہیں جو کہ ایک خاندانی تنازع کی وجہ سے اپنے الگ الگ رستوں پر چل پڑے ہوں- اور پھر جب آپ ایسے کسی بھائی سے بیالیس برسوں بعد ملیں تو یہ بھی لازم ہے کہ آپ کو اس بات کو جاننے کی بے چینی ہو کہ وہ کیسا ہے؟

کچھ عرصہ پہلے میں نے ٹی ورلڈ کپ دیکھنے کے بہانے اور اپنے پرانے پچپن سال پہلے کے بنگالی دوستوں سے ملنے کے لئے بنگلہ دیش کا دورہ کیا- یہ میرے اسکول کے وہ دوست تھے جن کے ساتھ میں نے سرگودھا کے پی اے ایف کے بورڈنگ اسکول میں وقت گزارا تھا، جہاں آدھے اسٹوڈنٹس کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہونا لازمی تھا-

اس دورے سے تقریباً پنتالیس سال پہلے (جب لکھاری ضلع سلہٹ میں ایک سب ڈویژنل آفیسر (ایس ڈی او، موجودہ زمانے کا اسسٹنٹ کمشنر تھا)، ڈھاکہ میں اتنی بھیڑ بھاڑ نہیں تھی- آج تو شہر کے ایک حصے سے دوسرے تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں- اب بھی ٹریفک کے لئے سائیکل رکشہ بہت اہمیت رکھتے ہیں؛ کہتے ہیں کہ صرف ڈھاکہ میں گیارہ لاکھ رکشے ہیں- اور اس کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ موٹر بائیکس کا وجود ہی نہیں-

پرانے دوستوں کی گرمجوشی اور مہمان نوازی گرانقدر تھی تو جس طریقے سے ہم الگ ہوئے تھے اس کے بارے میں بھی شرمندگی محسوس کی جا سکتی تھی- انہوں نے ممکنہ حد تک نرم انداز میں بتایا کہ مغربی پاکستان سے واپسی کے بعد انہیں کن کن آزمائشوں سے گزرنا پڑ (ان میں سے کچھ پاکستان آرمی کے افسر تھے)- اگلوں کو سننے کے لئے حوصلے اور ہمدردی کی ضرورت تھی- ان احساسات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں- ایسا لگ رہا تھا کہ آپ خاندان کے وہ فرد ہیں جس پر قتل کا الزام ہے اور آپ مقتول کے خاندان والوں سے ملنے آئے ہیں-

سیاست اور 1971 کے بارے میں تفصیلی گفتگو سے گریز کیا گیا تا کہ دوبارہ ملنے کی خوشی کا ماحول برقرار رہے- تاہم بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے اہم رہنما کی پھانسی اور آدھے درجن سے زیادہ افراد کو عمر قید کی سزاؤں والے معاملے چونکہ تازہ تھے لہٰذا انہیں گفتگو سے باہر نہ رکھا جا سکا- پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے جماعت اسلامی کے لیڈر کو پھانسی دینے پر منظور کی جانے والی قرارداد کے خلاف احتجاج کے لئے ناراض ہجوم ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن پر چڑھ دوڑا تھا-

اس بارے میں بنگلہ دیشی دوستوں کا جواب یہ تھا کہ حقائق جانے بغیر فیصلہ کرنا، پاکستانی حکومت کی عدم حساسیت کو ظاہر کرتا ہے- یہ احساس دلایا گیا کہ 1971 کے زخموں کو بھرنے کے لئے چند لوگوں کو تو سزائیں (آپ پھانسیاں پڑھیں) بھگتنا پڑیں گی-

کچھ دن بعد یہ احساس کہ بنگلہ دیش میں ایک جنگ جاری ہے، ان کے درمیان جو ہندوستان کو چاہتے ہیں اور وہ جو ہندوستان سے نفرت کرتے ہیں- وہ جو ہندوستان کو پسند نہیں کرتے انہیں وسیع تناظر میں ہندوستان سے نفرت کرنے والا کہا جاتا ہے بجائے اس کے کہ انہیں پاکستان کا حمایتی پکارا جائے کیونکہ اس سے ان کی کریڈیبیلٹی متاثر ہوتی ہے-

'ہندوستان کے عاشقوں' کی روح رواں عوامی لیگ ہے جبکہ پارٹی جو ہندوستان کی مخالف ہے وہ ہے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ہے جو کہ پاکستان سے کسی بھی رابطے کو بھی ترجیح دینا نہیں چاہتی-

سب سے حیران کن چیز یہ تھی کہ ملک میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو بابائے قوم بھی نہیں مانتے- کچھ تو طنزیہ ہو کر ذولفقار علی بھٹو کو اصل بابائے قوم بلاتے ہیں تاہم آگے چل کر وہ کہتے ہیں اصل میں جنرل ضیاء الرحمٰن وہ شخص تھے جس نے جسمانی طور پر پاکستانی افواج کا مقابلہ کیا-

مشکلات کے باوجود، بنگلہ دیش نے پاکستان کے مقابلے میں بہتر پرفارم کیا ہے- دوست ملکوں سے ملنے والی رقم کی وجہ سے اور آئی ایم ایف سے جوڑ توڑ کرنے کے بعد کہیں جا کر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب تک پہنچے تو ان کے ذخائر انیس ارب ہیں- کتنی جادوگری کے بعد، ہمارے روپیہ ڈالر کے مقابلے میں سو سے نیچے آیا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں ڈالر کے مقابلے میں ٹکا 78 کا ہے- یہ ہماری خراب معاشی کارکردگی کی بھی خاصی صحیح عکاسی ہے کیونکہ علیحدگی کے وقت ٹکے کی قیمت پاکستانی پچاس پیسوں کے برابر ہوا کرتی تھی-

ایک اور حیران کن چیز یہ ہے کہ جہاں 1971 میں مغربی پاکستان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی وہاں آج بنگلہ دیش کی آبادی پندرہ کروڑ ہے اور ہماری آبادی انیس کروڑ سے بڑھ چکی ہے- لہٰذا ملک میں رائج مذہبی اقدار کے باوجود انہوں نے اپنی آبادی کو کنٹرول میں رکھا- پاکستان میں تو کوئی معاملے پر بات بھی نہیں کرتا-

جہاں تک انٹرنیشنل ایجنسیز کی جانب سے مانیٹر کئے جانے والے سوشل انڈیکیٹرز کا سوال ہے تو صحت اور تعلیم کے حوالے سے ہم بنگلہ دیش سے پچیس ملک پیچھے ہیں- یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ بنگلہ دیش اپنے دائمی سیاسی بحران کے باوجود، مالی اور سماجی دونوں اعتبار سے، صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے-

تبدیلی کا جائزہ لینے کی اپنی کوشش میں، میں سلہٹ جا پہنچا جہاں میں نے 1969 میں خدمات سرانجام دی تھیں اور وہاں کے ڈپٹی کمشنر سے اس کے آفس میں ملا، جو کبھی میرا آفس ہوتا تھا- پینتالیس سال بعد، بنگلہ دیش کا ڈی سی کمانڈ میں ہے جبکہ ہمارے زمینی ڈھانچے میں اب بھی ابہام ہے-

بنگلہ دیش جغرافیائی اور نسلی اعتبار سے ہم سے اتنا زیادہ دور تھا اسے الگ ہونا ہی تھا، چاہے وہ 1971 میں نہ ہوتا تو چند برس بعد ہوتا لیکن ہوتا ضرور- پچھتاوا بس اتنا ہے کہ یہ جدائی زیادہ مہذب انداز میں بھی ہو سکتی تھی-

بنگلہ دیشی عوام میں پاکستان اب بھی مقبول ہے تاہم حکومت میں نہیں- دونوں ملکوں میں موجود بانڈ کو مضبوط کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ لو پروفائل سفارتکاری کا صبر و تحمل کے ساتھ سہارا لیا جائے-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری ایک سابق بیوروکریٹ ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں