فتووں کا موسم

اپ ڈیٹ 02 جون 2014
امریکہ، فرانس اور چین جیسے کافر ملک تو ان بچیوں کی رہائی کیلئے مدد کی پیشکش کر رہے ہیں لیکن پاکستان سمیت کسی بردار اسلامی ملک نے مدد کی پیشکش تو دور کی بات، شاید کوئی مذمتی بیان تک نہیں دیا-
امریکہ، فرانس اور چین جیسے کافر ملک تو ان بچیوں کی رہائی کیلئے مدد کی پیشکش کر رہے ہیں لیکن پاکستان سمیت کسی بردار اسلامی ملک نے مدد کی پیشکش تو دور کی بات، شاید کوئی مذمتی بیان تک نہیں دیا-

چند روز پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہم سے خدا کا شکر ادا کرنے کو کہا- پوچھا کہ وہ تو ہر وقت ادا کرتے رہنا چاہئے آج ایسی کیا بات ہو گئی کہ آپ خصوصی طور پر شکر ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں؟ نصیب دشمناں کیا مملکت خداداد سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو گیا یا پھر غریب کی زندگی آسان کرنے کی کوئی تدبیر ہو گئی؟

فرمایا، احمق ایسا کچھ نہیں بلکہ اس بات پر خدا کا شکر ادا کرو کہ تم نہ تو کسی 'کافر' ملک میں رہتے ہو اور نہ ہی تمہیں کبھی کسی کافر ملک جانے کا اتفاق ہوا ہے ورنہ اگر تم کسی ایسے ملک میں مر گئے تو تمہاری موت بھی حرام ہو گی- ذرا اور کریدا تو بتایا کہ ایک سعودی عالم نے فتویٰ دیا ہے کہ اشد ضرورت میں بھی کافر ملک جانے سے پرہیز کرنا چاہئے اور یہ کہ خدا نے مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں رہنے کا حکم دیا ہے-

پوچھا یہ کیسا فتویٰ ہے! اگر دو سو سال پہلے یہ فتویٰ آیا ہوتا شاید پچھلے دو سو سالوں میں مسلمانوں کو ایک بھی عظیم لیڈر نہ ملتا- مصطفیٰ کمال ہوں یا ہمارے اپنے قائد اعظم، سب کے سب تو انہی کافر ملکوں سے تعلیم حاصل کر کے ہی آئے اور اپنے لوگوں قسمت بدل دی- ذرا سوچیں اگر یہ فتویٰ واقعی آ گیا ہوتا تو دنیا بھلے کتنا ہی آگے کیوں نہ نکل گئی ہوتی، یہ طے ہے کہ ہم غاروں میں رہ رہے ہوتے-

ویسے اس فتوے کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب کسی مسلمان کو دوسرے اسلامی ملک جانے کیلئے ویزہ وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا پڑے گا- میں تو اب اس انتظار میں ہوں کہ کب بنا ویزے کے دوسرے حج کیلئے روانہ ہو سکوں-

دوست تو ہمارے ملاقات کر کے چلے گئے پر سوچنے کیلئے نہ جانے کتنے دریچے کھول گئے- اس تازہ ترین فتوے کو سن کر برسوں پہلے پڑھی یہ بات یاد آئی کہ ہمارے اسلاف جن کی عظمت کے گن گاتے ہم نہیں تھکتے ہماری نسلوں کو دنیا سے پیچھے رکھنے کے کتنے بڑے مجرم ہیں- پرنٹنگ پریس، جس نے بنی نوع انسان کیلئے علم و آگہی کی کتنی دنیائیں کھولیں، اسے اپنانے میں سلطنت عثمانیہ اور مغل سلطنت نے جو اپنے زمانے میں دنیا کی سپر پاورز ہوا کرتی تھیں، صدیاں لگا دیں-

پھر یاد آیا کہ نہیں، انہوں نے تو اسے اس لئے نہیں اپنایا تھا کہ پرنٹنگ پریس کے خلاف فتویٰ آ گیا تھا- آج جس لاوڈ اسپیکر پر چیخ چیخ کر خلق خدا نیندیں اور سکون حرام کیا جاتا ہے، پہلے پہل اس کے خلاف بھی فتویٰ آیا تھا- ریل گاڑی اور اسی نوع کی ہر جدید چیز کے خلاف فتوے آتے رہے اور ان فتووں کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے سے یا تو رکے رہے یا پھر اتنی دیر میں آگے بڑھے کہ باقی بہت آگے نکل چکے تھے-

فتووں کا ذکر آیا تو پچھلے دنوں سعودی عرب ہی کے مفتی اعظم کے فتوے کا ذکر بھی لازمی ہے جس میں انہوں نے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کو گناہ کبیرہ اور حرام قرار دیا- ان کا یہ فتویٰ مشہور کالم نگار جناب حسن نثار صاحب کو تو اتنا بھایا کہ ایک ٹی وی پروگرام میں وہ یہاں تک کہه گئے کہ مفتی صاحب کے ہاتھ چومنے کا دل کرتا ہے-

فتووں کی بات چل رہی ہے تو بات پڑوس میں دیے جانے والے فتووں کی بھی ہو جائے جہاں حالیہ انتخابات کے دوران مسلمانوں کو کنفیوز کرنے کے لئے مختلف جماعتوں کو ووٹ دینے کے فتوے دئے گئے-

اب ان متضاد فتووں کے نتیجے میں مسلمان وہاں کے چناؤ میں کس کا ساتھ دیتے ہیں اس کا فیصلہ بھی چند روز بعد آنے والے انتخابی نتائج سے اچھی طرح ہو جائے گا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس سے ہندوستان کے مسلمانوں کا فائدہ کچھ نہیں ہونا-

اسی طرح کچھ عرصہ پہلے انسان کے چاند یا مریخ پر جانے کے خلاف بھی فتویٰ آیا تھا- یہ کافی نہیں تو پولیو ویکسین پلوانے کے خلاف فتویٰ تو خیر سب کو یاد ہی ہو گا جس کی بدولت آج خیر سے ہماری مملکت خداداد کے باسیوں پر سفری پابندیاں لگانے کی تجویز آ رہی ہے-

صحافی برادری جو آج بری طرح بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے اس کے خلاف بھی فتویٰ آ چکا ہے- سارے چینلز بھلے صحافیوں پر حملے کا ذمہ دار، ایک دوسرے یا خفیہ اداروں پر ڈالتے رہیں میں تو یہی سمجھوں گا کہ جب تک ان حملوں کے ذمہ دار سامنے نہ آ جائیں یہی فتویٰ صحافیوں پر حملوں کا ذمہ دار ہے-

بات پاکستان کی ہو جہاں جہاں ویسے بھی اپنے سوا سب کافر کہلاتے ہیں، تو ایسے میں اگر ایک مسلک/فرقے/مکتبہ فکر والے دوسرے مسلک/فرقے/مکتبہ فکر والوں کو 'کافر' کہیں تو اس کا ذمہ دار 'مغرب' نہیں بلکہ ایسے ہی فتوے ہیں- یہ تو وہ جگہ ہے کہ آپ کسی بھی مکتبہ فکر کے عالم کی تعریف سے دوسرے کو دیکھیں تو اگلا کافر ہی ہے-

چند روز پہلے نائجیریا میں اغوا ہونے والی لڑکیوں کے حق میں یا انہیں اغوا کرنے والے بوکو حرم کے خلاف ابھی تک تو کسی مفتی کا فتویٰ نظر سے نہیں گزرا تاہم صرف ملالہ نے --جس کے اپنے خلاف فتوے کی تیاری ہو چکی تھی-- ان لڑکیوں کے حق میں سب سے پہلے بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ میری بہنیں ہیں- دوسری جانب خبریں یہ آ رہی ہیں کہ اغوا کار ان لڑکیوں پر شادی کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں یا پھر وہ انہیں بیچنا چاہتے ہیں-

پچھلے روز خبر آئی کہ مفتی اعظم سعودی عرب اور او آئی سی نے اس معاملے میں بوکو حرام کی مذمت کی ہے. ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام مسلم ملکوں کے جید عالموں کی مشاورت سے اس قبیح عمل کے خلاف فوری فتویٰ آتا اور ان بچیوں کی رہائی کیلئے بوکو حرام پر دباؤ ڈالا جاتا-

مگر کیا کریں، فتوے زیادہ تر ہمیں آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے رکھنے کیلئے لگائے جاتے ہیں- شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ، فرانس اور چین جیسے کافر ملک تو ان بچیوں کی رہائی کیلئے مدد کی پیشکش کر رہے ہیں لیکن اس سلسلے میں شاید پاکستان سمیت کسی بردار اسلامی ملک نے مدد کی پیشکش تو دور کی بات، کوئی مذمتی بیان تک نہیں دیا-

ایسا ممکن اس لئے نہیں تھا کہ اس بارے میں ابھی تک کوئی تگڑا فتویٰ سامنے نہیں آیا- یا پھر اس لئے کہ جون ایلیا کے الفاظ میں،

"دنیا میں ایک ہی مقام ایسا ہے جہاں مختلف مذاہب یکجا ہوتے ہیں اور وہ ہے میدان جنگ"- اور ہمارے ایمان والوں کی نظر میں نائجیریا بہرحال میدان جنگ ہی تو ہے!

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Me shocked May 13, 2014 08:31pm
Me shocked with this hideous crime against humanity. The acts of kidnapping can not be justified regardless of religion or ethnicity. Fatwa or lack of Fatwa, the act of kidnapping should be condemned and I am sure it is condemned by all regardless of being Mullah or not being Mullahs. We all feel bad and helpless with these crimes or similar crimes against humanity – widely common in all parts of our world at various scales. But, sadly, our confused liberals traditionally target Mullahs and blame them for not being able to live in a society where human life is valued – same ways as some of the European did in the past and still ended up fighting – and fighting - each other in major wars and committed – and committing - major crimes against humanity. Sorry, Kamal Ata Turk is not a good example of changes, for he was also a no good dictator who blamed his own society and ended up committing crimes against humanity against poor Kurds – our society has ills but the European based solutions or models are not the answer as proven in the modern Turkey. We can learn from others but we need to find our own eventual solutions based on our own history - not from the glorified European text books made available to few in our society.