دنیا کے سب سے بڑے ڈائناسور کے فوسلز دریافت

اپ ڈیٹ 17 مئ 2014
سولہ مئی کو لی گئی اس تصویر میں ماہر قدیم حیاتیات دریافت شدہ ڈائناسور کی ران کی ہڈی کے فوسل  ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
سولہ مئی کو لی گئی اس تصویر میں ماہر قدیم حیاتیات دریافت شدہ ڈائناسور کی ران کی ہڈی کے فوسل ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بیونس آئرس: پیلین ٹولوجسٹ (ماہر قدیم حیاتیات) نے ارجنٹینا کے مضافاتی علاقے پیٹاگونیا سے ڈائنا سور کے فوسلز دریافت کیے ہیں جسے اب دریافت کیا جانے والا دنیا کا سب سے بڑا جاندار قرار دیا جا رہا ہے۔

اسے دریافت کو لمبے ڈائناسور کی قسم ٹائٹانوسور سے بتایا جاتا ہے، چار ٹانگوں والے اس ڈائناسور کی گردن اونچی اور دم انتہائی لمبی ہوتی ہے جو تحقیق دانوں کے بقول آج سے 95 ملین سال قبل زمین پر پائے جاتے تھے۔

جنوبی ارجنٹینا کے شہر ٹریلیو میں واقو ایجی ڈیو میوزیم کے ایک ماہر کے مطابق ڈائناسور کا وزن تقریباً 14 ہاتھیوں کے وزن سے زائد یا 100 ٹن کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔

کاربا لیڈو نے ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ یہ صحیح معنوں میں قدیم حیاتیات خزانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس جانداروں کے بہت سے بقایاجات ابھی بھی محفوظ حالت میں موجود ہیں جو عام طور پر نہیں ہوتا کیونکہ عام طور پر جائنٹ ٹائٹانوسار کی بقایاجات ٹوٹی ہوئی اور انتہائی کم ہوتی ہیں۔

میوزیم کے ڈائریکٹر روبن کونیو نے میڈیا کو بتایا کہ اپی طرز کے سب سے بڑے ڈائناسور کی بقایاجات اب تک دنیا میں کسی بھی ڈائناسور کی ملنے والی سب سے مکمل بقایاجات ہیں۔

یہ فوسلز 2011 میں حادثاتی طور پر اس وقت ملی تھیں جب بیونس آئرس سے 1300 کلومیٹر دور ایک علاقے میں لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پودے کھانے والا ڈائناسور تھا جس کی سر سے دم تک لمبائی تقریباً 40 فٹ ہو گی۔

میوزیم نے اپنی وب سائٹ پر اس کے فوسلز کی تصویر جاری کی ہے اور صرف اس کے ران کی ہڈی کے فوسل کی لمبائی اس کے ساتھ لیٹے ماہر قدیم حیاتیات سے زیادہ ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ دیگر سات ڈائناسور کے بھی 200 سے زائد فوسلز ملے ہیں جن میں ایک گوشت کھانے والے جاندار کے ٹوٹے دانت بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں