مسز مودی کی پس پردہ اور پرسکون زندگی میں ہلچل

اپ ڈیٹ 27 مئ 2014
وزیراعظم ہندوستان نریندرا مودی کی اہلیہ جشودا بین مودی تیس اپریل کو احمدآباد سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع انجھا ٹاؤن میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے پہنچیں تو سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں اپنی حفاظت میں لے لیا۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
وزیراعظم ہندوستان نریندرا مودی کی اہلیہ جشودا بین مودی تیس اپریل کو احمدآباد سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع انجھا ٹاؤن میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے پہنچیں تو سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں اپنی حفاظت میں لے لیا۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

براہمن واڑہ: وزیراعظم نریندرا مودی کی اہلیہ جو ان کی آبائی ریاست کے ایک دیہات میں رہائش پذیر ہیں، ہندوستانی حکومت انہیں اعلٰی سطح کی سیکیورٹی فراہم کرنے کی تیاری کررہی ہے۔

اس اقدام سے ان کی پُرسکون زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ وہ اس گاؤں میں اس وقت سے مقیم ہیں، جب پینتالیس برس پہلے ان کے شوہر ان سے علیحدہ ہوگئے تھے۔

باسٹھ برس کی جشودا بین ایک ریٹائرڈ پرائمری اسکول ٹیچر ہیں۔ انہیں قومی سطح پر توجہ اس وقت حاصل ہوئی، جب مودی نے برسوں کی خاموشی کے بعد پچھلے ماہ انتخابی اندراجات میں اپنی شادی کا انکشاف کیا۔

وہ دو مربتہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر عبادت کے لیے جاچکی ہیں، اور حالیہ ہفتوں کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے بچنے کے لیے انہوں نے گجرات کے گاؤں براہمن واڑہ میں واقع اپنے تنگ سے گھر کی کھڑکیاں ختم کردی ہیں، جس میں وہ اپنے بھائی کے گھرانے کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں۔

خفیہ سروس جو امریکی صدر کی حفاظت پر مامور ہے، اس طرز کی ایک ایلیٹ فورس اسپیشل پروٹیکشن گروپ (ایس پی جی) اب ان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری لے لی ہے۔ قانون کے تحت ایس پی جی وزیراعظم اور ان کے قریبی عزیزوں کی سیکیورٹی کی ذمہ دار ہے۔

گجرات پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس پی جی نے جشودا بین کے سلسلے میں عمومی انکوائری کی تھی۔ ریاستی پولیس اس معاملے کی قیادت کرے گی اور ایس پی جی کو اس پر انحصار کرنا پڑے گا۔

نئی دہلی کے ایک اور سیکیورٹی اہلکار نے کہا کہ جشودا بین اور مودی کی پچانوے برس کی والدہ اعلٰی سطح کے تحفظ کی حقدار ہیں، اور وہ اس سے انکار نہیں کرسکتیں۔ اگرچہ یہ تحفظ خطرے کے تصورات سے مختلف ہوسکتا ہے۔

مودی ہندوستان کے اُن سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں بہت زیادہ تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس سال کی ابتداء میں انڈین مجاہدین کے اراکین کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی جو ان کے ایک انتخابی جلسے کو نشانہ بنانے کی سازش کر رہے تھے۔

سائے میں گزرتی زندگی:

جشودا بین کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ انہیں سیکیورٹی فراہم کرنے کے کسی منصوبے کا انہیں کوئی علم نہیں ہے۔

ان کے بھائی اشوک مودی نے کہا کہ انہیں کسی قسم کی سیکیورٹی کی ضرورت نہیں، ان کی زندگی عبادت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اشوک اپنے گھر کے سامنے کے حصے میں پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’کیا وہ چاہیں گی کہ وہ اپنے شوہر کے پاس واپس چلی جائیں، جیسا کہ ہمارے سماج کی ہر ایک عورت چاہتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔‘‘

واضح رہے کہ گجرات میں اکثر لوگوں کے نام مودی ہیں۔

جشودا کے دوسرے بھائی کملیش ہیں، چند گھر چھوڑ کر ان کا گھر ہے، وہ پیاز فروخت کرکے گزارا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں کی آبادی ڈھائی ہزار افراد پر مشتمل ہے، جب مودی نے بالآخر اپنی شادی کو قبول کرلیا تھا تو یہاں کے لوگ بہت خوش ہوئے تھے۔

مٹی کی دیواروں کے گھر میں بیٹھے کملیش نے کہا کہ اب جبکہ وہ وزیراعظم بن گئے ہیں، تو یہاں ایک امید پیدا ہوئی ہے کہ اس گاؤں میں کچھ اچھا ہوگا۔

وزیراعظم مودی نے اب تک اپنی بیوی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی، لیکن ان کے دوستوں اور عزیزوں کا کہنا ہے کہ ان کی شادی اس وقت ہوئی تھی جب وہ کم سن نوجوان تھے، ان کے والدین نے یہ رشتہ طے کیا تھا، جیسا کہ غریب گھرانوں میں ہوتا ہے۔

لیکن مودی نے اس کے بعد جلد ہی گھر چھوڑ دیا اور ہندو قوم پرست راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رضاکار بن کر اپنی سخت جدوجہد والی زندگی شروع کردی۔ اس تنظیم کے اعلٰی سطح کے بہت سے رہنما قومی ترقی کے تنظیمی مقاصد پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے مجرد زندگی گزار رہے تھے۔

ایک گجراتی ٹیلیویژن چینل پر گزشتہ ہفتے نشر ہونے والے ایک خصوصی انٹرویو میں جشودابین نے کہا تھا کہ شادی کے بعد مودی پورے ملک میں آر ایس ایس کے کاموں میں مصروف ہوگئے اور ان سے کہا کہ وہ گھر واپس چلی جائیں۔

انہوں نے کہا ’’جب میں وڈناگر میں ان کے خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے آئی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اپنے سسرال میں کیوں آئی ہو، جب کہ تم ابھی بہت کم عمر ہو، اس کے بجائے تمہیں اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنی چاہیٔے۔ انہیں چھوڑنے کا فیصلہ میرا اپنا تھا، اور ہمارے درمیان کوئی تنازعہ نہیں تھا۔‘‘

مودی اپنے خاندان سے دور ہوتے چلے گئے اور سیاست ان پر غالب آتی گئی، انہوں نے بہت سے دیگر سیاستدانوں کے برعکس اپنے خاندان سے ایک فاصلہ رکھا، جیسا کہ ان کے بیٹے اور بیٹیوں کو بھی شہرت اور اقتدار ورثے میں ملتا ہے۔

گجرات کے ان تینوں انتخابات کے دوران جس میں انہوں نے مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کرکے بطور وزیراعلٰی خدمات انجام دیں۔ اس دوران مودی انتخابی امیدوار کے فارم میں ازدواجی حیثیت کا خانہ خالی چھوڑ تے رہے ۔لیکن پچھلے مہینے انہوں نے اس ڈر سے کہ ان کے حریف ان کو نااہل کرواسکتے ہیں، اس خانے کو پُر کرکے اپنے لیے راہ ہموار کرلی۔

تبصرے (0) بند ہیں