موہٹہ پیلس -- قصر فاطمہ نہ بن سکا

05 جون 2014
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ
فوٹو -- موہٹہ پیلس میوزیم ویب سائٹ

کراچی کا علاقہ کلفٹن شہر کے امراء کا مسکن کہلاتا ہے۔ آج ہی نہیں، تقسیم ہند سے پہلے بھی کلفٹن امیروں کا علاقہ تھا۔ بٹوارے کے بعد 1970 کی دہائی میں اس کی ایک بڑی وجۂ شہرت مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ 70 کلفٹن تھی۔

اس علاقے میں آج بھی ایک محل نما عمارت اطراف میں بسنے اور وہاں سے گزرنے والوں کے لیے توجہ کا مرکز رہتی ہے۔ یہ عمارت "موہٹہ پیلس" ہے، جو آج کل ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہ عمارت کراچی کے ایک نام ور تاجر اور مخیر شخصیت شیو رام موہٹہ نے تعمیر کرائی تھی۔

شو رام نے موہٹہ پیلس کیوں بنوایا، یہ بھی ایک دل چسپ اور محبت بھری کہانی ہے۔ بالکل اُسی طرح کی کہانی جس طرح شاہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز کی یاد میں "تاج محل" تعمیر کروایا تھا۔ شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کروایا تھا، لیکن ممتاز کے مرنے کے بعد، مگر موہٹہ نے یہ عمارت بیوی کو مرنے سے بچانے کے لیے بنوائی تھی۔

کراچی کے حوالے سے معروف مورخ عثمان دموہی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے میں لکھتے ہیں؛

"یہ عمارت ایک ہندو مارواڑی تاجر رائے بہادر شیورام موہٹہ نے 1933 میں تعمیر کروائی تھی۔ ہندوستان کے معروف نقشہ ساز آغا احمد حسین نے جے پور سے آکر اس کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ انہوں نے جے پور فنِ تعمیر کے زیراثر اینگلو مغل انداز میں پیلے، گزری اور گلابی جودھ پوری پتھروں کے امتزاج سے یہ محل تعمیر کیا۔


اسے تعمیر کرنے کا مقصد کچھ اس طرح بتایا جاتا تھا کہ شیورام موہٹہ کی بیوی ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہوگئی تھیں۔ ڈاکٹروں نے علاج یہ تجویز کیا کہ اگر مریضہ کو مسلسل سمندر کی تازہ ہوا میں رکھا جائے تو وہ بالکل صحت یاب ہوسکتی ہے۔ چنانچہ شیورام موہٹہ نے یہ قلعہ نما بنگلہ کلفٹن میں تعمیرکروایا تھا۔ گذشتہ صدی میں تعمیر کی جانے والی یہ خوب صورت اور دل کش عمارت ایک بہت بڑے رقبے پر محیط ہے۔"

قیامِ پاکستان کے بعد یہ پیلس قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو دے دیا گیا، ان کے انتقال کے بعد حکومت سندھ نے اسے تحویل میں لے لیا۔

تقسیم کے بعد موہٹہ کی ہندوستان ہجرت کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما کنور خالد یونس نے روزنامہ ڈان میں لیٹر ٹو ایڈیٹر میں لکھا ہے کہ 2004 میں جب وہ ایک سرکاری دورے پر دہلی گئے تھے تو ان کی ملاقات تقریباً 90 سالہ ایک بزرگ سے ہوئی تھی جنہوں نے موہٹہ کی ہجرت کی کہانی یوں بیان کی؛

"موہٹہ نے یہ طے کیا تھا کہ وہ تقسیم کے بعد کراچی میں ہی رہیں گے۔ لیکن ایک روز ایک بااثر سیاسی شخصیت نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ موہٹہ پیلس خالی کردیں کیوں کہ یہ ایک سرکاری دفترکے لیے مطلوب ہے۔"

بزرگ کے مطابق موہٹہ یہ سن کر سکتے میں آگئے اور انہوں نے اسی رات پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کے اگلے دن وہ بمبئی منتقل ہوگئے۔ چابیاں اپنے منیجر کے حوالے کیں اور ایک تحریر بھی دی جس میں لکھا تھا کہ وہ یہ عمارت تحفتاً دے رہے ہیں۔ اس میں عمارت زبردستی خالی کرانے کا ذکر نہ تھا۔

کنور خالد یونس نے ٹیلی فون پر ہمیں اس حوالے سے مزید معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ بزرگ سے ان کی ملاقات دہلی میں ایک تصویری نمائش کے دوران ہوئی تھی جس میں انہوں نے اس واقعے کا ذکر کیا تھا۔


موہٹہ پیلس کا کل رقبہ 18 ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد بھی کلفٹن کے علاقے میں اتنی وسیع و عریض عمارت نہیں ہے۔ یہ ممتاز عمارت دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ دونوں منزلوں پر کل ملا کر 16 کمرے ہیں۔

پیلس میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے آپ کی نظر بیرونی رُخ پر پڑتی ہے جسے خوب صورت، رنگارنگ اور نفیس کھڑکیوں، پتھر کی دیوار، محراب اور میناروں سے ترتیب دیا گیا ہے۔ منظر ایسا جاذب نظر ہے کہ کچھ ساعتوں کے لیے کوئی بھی شخص اسے دیکھ کر مبہوت ہوجاتا ہے۔

نچلی منزل پر کمرے آسائش اور رہائش کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ کمرے دیکھ کر یہ بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ یہ فردِ واحد کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ تو تھا گراؤنڈ فلور کا ذکر لیکن پہلی منزل بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اگر آج بھی عمارت کی چھت پر جا کر مشاہدہ کریں تو شاید آپ کو سمندر کا کوئی نظارہ نظر آجائے۔

گو بلند و بالا رہائشی عمارتوں نے موہٹہ پیلس کو چہار جانب سے گھیر لیا ہے، لیکن جس وقت یہ عمارت تعمیر ہوئی تھی، اُس وقت اس کے مکین نہ صرف گرمیوں میں سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں کا لطف اُٹھاتے تھے بلکہ چھت پر بیٹھ کر سمندر کی سرکش لہروں کا نظارہ بھی کرتے تھے۔

چھت پر تعمیر کیے گئے گنبد کے اردگرد بنایا جانے والا خوش منظر احاطہ مکینوں کو شدید دھوپ سے محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ مرکزی گنبد کے علاوہ عمارت کے اطراف پانچ نفیس گنبد عمارت کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ عمارت کی چھتوں پر کیا جانے والا کام نقاشوں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نقاشی کے ذ ریعے خوبصورت بیل بوٹوں کو منفرد انداز میں تر تیب دیا گیا ہے۔ ان میں مختلف انداز کے رنگ استعمال کیے گئے ہیں، جس میں آبی رنگ بھی شامل ہے۔ عمارت کے اطراف ایک خوب صورت اور وسیع باغیچہ بھی موجود ہے۔


موہٹہ پیلس کی شان دار عمارت کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اس عمارت میں وزارتِ خارجہ کا دفتر قائم کیا گیا۔ بٹوارے کے بعد ڈپٹی چیف پروٹوکول آفیسر آغا ہلالی موہٹہ پیلس میں قائم دفتر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛

"موہٹہ پیلس شہر سے خاصے فاصلے پر واقع تھا اور ملازمین کی وہاں تک رسائی ایک بڑا مسئلہ تھی، اس مسئلے کو ہم نے یوں حل کیا کہ ایمپریس مارکیٹ سے ملازمین کو موہٹہ پیلس لانے کے لیے بسوں کا بندوبست کیا گیا۔ اس وقت کلفٹن کے علاقے میں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ سمندرکا پانی تھا اور ریت ہی ریت، بعض اوقات تو کلفٹن کی سڑکوں پر 6 انچ کے قریب سمندری پانی کھڑا ہوجاتا تھا۔"

موہٹہ پیلس کی تصویر وزارتِ خارجہ کی جانب سے سالِ نو کے موقع پر چھپنے والے کارڈ پر سرکاری طور پر شائع کی جاتی تھی۔ جب موہٹہ پیلس محترمہ فاطمہ جناح کے نام کیا گیا تو وزارتِ خارجہ نے عمارت خالی کرنے کی پیش کش کی، لیکن محترمہ نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ گو کمروں کی مکمل طور پر صفائی کروائی گئی اور پیلس کے اطراف میں لگائی جانے والی خاردار تاروں کی باڑ بھی ہٹادی گئی۔ اس کے ساتھ کبوتروں کے گھونسلے بھی صاف کردیے گئے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے موہٹہ پیلس کا انتخاب قائدِاعظم کی بمبئی والی رہائش گاہ کے بدلے کیا تھا۔

محترمہ فاطمہ جناح کی دوست بیگم اکرام اللہ نے روزنامہ ڈان کو دیے گئے انٹرویو میں موہٹہ پیلس کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں کہا؛

"ایک دن شام کو محترمہ فاطمہ جناح مجھے اپنے ساتھ موہٹہ پیلس کی چھت پر لے گئیں، وہاں سے سمندر کا نظارہ بہت خوب صورت تھا۔ محترمہ جب پہلی بار رہائش کے لیے پیلس پہنچیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ ایک بہت بڑی جگہ نہیں ہے۔ محترمہ نے جواباً کہا، نہیں، مجھے یہ جگہ پسند ہے۔ یہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تھی، اس رات فاطمہ جناح نے موہٹہ پیلس میں کھانا کھایا۔ لیڈی ہدایت اللہ کے مطابق عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر قوالی کی محفل ہورہی تھی۔ ہم تمام رات بیٹھ کر قوالی سنتے رہے۔"


موہٹہ پیلس کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ایوب خان کے خلاف تحریک کا مرکز بھی موہٹہ پیلس ہی تھا۔ اس عمارت سے محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابی مہم کا آغاز بھی کیا تھا۔ موہٹہ پیلس میں ایوب خان کے خلاف حکمتِ عملی ترتیب دینے کے لیے اجلاس بھی منعقد ہوتے تھے۔

محترمہ فاطمہ جناح کی وفات بھی اسی عمارت میں ہوئی، وہ ایک صبح اپنے کمرے میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئیں۔ کچھ حلقے ان کی پر اسرار موت کو ایوب خان کے خلاف ان کی سیاسی مہم سے بھی جوڑتے ہیں لیکن جیسا کہ ہمارے ملک میں روایت ہے، لیاقت علی خان سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو تک جتنے بھی افراد کی سیاسی اموات ہوئیں، سب ایک معمہ ہی ثابت ہوئیں۔

جب تک محترمہ فاطمہ جناح حیات تھیں، ایوب خان کی انتظامیہ کی جانب سے موہٹہ پیلس کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح قائداعظم کی برسی موہٹہ پیلس میں مناتی تھیں۔ اس موقع پر پیلس کے باغیچے میں شامیانے لگا کر انتظامات کیے جاتے تھے اور ایک مخصوص بوہری سے بریانی کی دیگیں منگوائی جاتی تھیں۔


محترمہ کی وفات کے بعد ان کے ورثاء میں موہٹہ پیلس کی ملکیت کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن ہائی کورٹ نے موہٹہ پیلس ان کی بہن شیریں جناح کے حوالے کیا جن کا انتقال 1980 میں ہوا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ عمارت خیراتی کاموں کے لیے وقف کردی تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ عمارت میں طالبات کے لیے ایک میڈیکل کالج قائم کیا جائے۔

شیریں جناح کے انتقال کے بعد ایک بار پھر ان کے ورثاء میں عمارت کے حصول کے لیے مقدمے بازی شروع ہوگئی تھی، جس کے بعد عدالت نے عمارت کو سیل کرنے کے احکامات جاری کردیے تھے، اور پھر عمارت سیل کردی گئی تھی۔

1995 میں حکومت سندھ کی درخواست پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے حکومتِ سندھ کے محکمۂ ثقافت کو یہ پیلس خریدنے اور اسے بحال کرکے میوزیم میں تبدیل کرنے کے لیے 70 لاکھ روپے دیے۔ محکمۂ ثقافت نے 61 لاکھ روپے عمارت خریدنے کے لیے ادا کیے جب کہ باقی رقم عمارت کی تزئین و آرائش پر صرف کی۔ پیلس دیکھ بھال کے لیے ایک خودمختار بورڈ آف ٹرسٹینر بھی بنایا گیا۔ عمارت کی بحالی کے دوران اسے اس کے اصلی رنگ میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ طویل عرصے سے جمنے والی مٹی کی تہوں اور کالک کو صاف کیا گیا، تاکہ گلابی پتھر کا اصلی روپ نمایاں ہوسکے۔

موہٹہ پیلس کا سرکاری نام "قصر فاطمہ" ہے لیکن اس نام سے اس عمارت کو کوئی نہیں جانتا یہ اب تک "موہٹہ پیلس" ہی ہے. عمارت کی آفیشل ویب سائٹ بھی موہٹہ پیلس میوزیم کے نام سے موجود ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

میر کمال خان Jun 05, 2014 02:47pm
مجھے پہلی بار اس بات کا علم ہوا کہ موہٹہ پیلس کے مالک کراچی سے واپس جانے کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ با اثر سیاسی شخصیت نے تقسیمِ ہند کے بعد اُنہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنا محل نہ صرف خالی کریں بلکہ ہندوستان ہجرت کر جائیں، یہ تقسیمِ ہند کا افسوسناک پہلو ہے، جہاں بلوچ صاحب اتنی جرات کی ہے تھوڈی سی اور بھی کرلیں ہمیں اُس با اثر شخصیت کا نام بھی معلوم ہونا چاہیئے۔
Bilal Zafar Jun 06, 2014 10:09am
Great work sir , i think this article is very informative specially for pakistanis,Hats Off for you Sir ,you are the real historian of karachi...
Shamss Jun 06, 2014 10:28am
Well written.
Dilawar Khan Jun 06, 2014 05:49pm
Very well written with exceptional information as always Akhtar Sahab. It would have been much better if situation when Almighty Officials urged Mr. Mohtta to leave the palace was more enlightened. You always bring the truth behind true lies and that's all matters the most. Thanks alot.
munawar butt Jun 07, 2014 03:00pm
It is a wonderful and well written story that describes the history in a simple way.Wish Mr Mohta had not been asked that this palace had needed by the state and he lived there as per his desire, This portion of the history made me gloomy.People are more worthy than buildings,land and anything else.This ruthless attitude should be mended and ownership must not be snatched ..I m sorry Mr Mohta,I m sorry
faizan Jun 07, 2014 05:01pm
nice information
faizan Jun 07, 2014 05:18pm
very knowlegeble
Ruk Sindhi Jun 07, 2014 10:49pm
اختر بلوچ صاحب جي هي تحرير انتهائي ڄاڻ ڏيندڙ آهي. سنڌ جي ٻين تاريخي ماڳن تي به ان قسم جون اسٽوريون ڪرڻ ۽ ماڻهن کي ڄاڻ ڏيڻ جي ضرورت آهي. رڪ سنڌي
Mansoor Ahmed Jun 08, 2014 06:04pm
Sheran Jinah k bad un k bachy kahan hain ? Qaed Azam ka khandan kis halat main hy?