افغانستان کی 'پہلی' خاتون ٹیکسی ڈرائیور
![]() |
افغانستان کی سارہ بہائی کی ٹیکسی میں جب بھی کو ئی مرد مسافر بیٹھتا ہے تو وہ ایسے میں خواتین کے حقوق اجاگر کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔
ان کو یہ بھی امید ہے کہ ملک کا اگلا صدر ان کے دلائل کو ضرور سنے گا۔
سارہ گزشتہ دس سالوں سے مزار شریف کی سڑکوں پر ٹیکسی چلا رہی ہیں۔ اس دوران افغانستان نے کئی چیلنجز دیکھے جن میں سخت گیر طالبان حکومت کے بعد خواتین کی زندگیوں میں محدود تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔
ہفتے کو افغانستان میں الیکشن کا دوسرا اور حتمی مرحلے ہو گا اور ایسے میں سارہ کہتی ہیں کہ اگلے صدر کو مذہبی شدت پسندوں کی مخالفت کے باوجود اصلاحات پر کام کرنا چاہیئے۔
![]() |
افغانستان کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور تصور کی جانے والی سارہ کہتی ہیں کہ وہ بعض اوقات سفر کے دوران مرد مسافروں کو قائل کرتی ہیں کہ ایک عورت کا ٹیکسی چلانا بری بات یا غیر اسلامی نہیں۔
'مجھے آئندہ حکومت سے کئی توقعات ہیں۔ انہیں خواتین پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہو گی۔خواتین کو بڑا کردار دیا جانا چاہیئے'۔
![]() |
'انہیں وزارتیں بھی ملنی چاہیئں اور خواتین کی تعلیم کے لیے خواتین اساتذہ کو زیادہ تنخواہیں دینا ہوں گی'۔
سارہ کہتی ہیں کہ انہوں نے پچھلے کئی سالوں میں افغان خواتین کے لیے بہت کچھ تبدیل ہوتے دیکھا۔
'کئی خواتین اپنی مرضی سے کاروبار شروع کر رہی ہیں۔ ان کے لیے بہت کام ہوا ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ہماری خواتین اپنے حقوق سے آگاہ ہیں'۔
'کام کرنے نے مجھے نڈر بنا دیا'
چالیس سالہ اور غیر شادی شدہ سارہ کہتی ہیں کہ وہ اب کسی سے نہیں ڈرتی۔انہوں نے دو منہ بولے بیٹوں اور اپنی بہن کے سات بچوں کی پرورش کے لیے ٹیکسی چلانا شروع کی تھی۔
![]() |
'طالبان اقتدار کے بعد جب مجھے پہلی مرتبہ لائسنس ملا تو سبھی نے مذاق اڑایا۔ لیکن کام کرنے نے مجھے بہادر بنا دیا ہے اور میں دکھانا چاہتی ہوں کہ عورتیں صرف شادی کرنے یا بچے پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوتیں'۔
کئی مسافر خواتین سارہ کو گاڑی چلاتا دیکھ کر اپنا نقاب اور برقعہ اتار کر ان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔
سارہ نے بتایا کہ مسافر خواتین ان پر بھروسہ کرتی ہیں۔
سارہ شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف کی سڑکوں پر ٹیکسی چلا کر روزانہ تقریباً نو ڈالرز تک کما لیتی ہیں۔
![]() |
'کچھ لوگ کہیں گے کہ میں ایک بری مثال قائم کر رہی ہوں اور میں نے کئی مرتبہ توہین آمیز رویہ بھی برداشت کیا لیکن کام کرنا میرا جنون ہے اور میں کسی دباؤ میں نہیں آؤں گی'۔
صدر کے لیے دو امید وار عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی زور دے کر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ معاشرے میں خواتین کے بلند مقام کے لیے کام کریں گے۔
رضاکاروں کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد ختم کرنے کے حوالے سے 2009 کے ایک قانون پر زیادہ عمل درآمد نہیں ہو سکا اور حال ہی میں خواتین کے خلاف سنگا ر ی جیسے ہولناک اور پرتشدد واقعات بھی سامنے آئے ۔
افغان ویمن نیٹ ورک کی حسینہ صفی نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ کسی عورت کا ٹیکسی چلانا پچھلے چودہ سالوں میں ہماری کامیابیوں کا ایک منہ بولتاثبوت ہے، تاہم زمین پر بہت محدود بہتری دیھنے میں آئی ہے۔
![]() |
'میں مزید کئی خواتین ڈرائیوروں کی امید کر رہی ہوں۔ اس سے افغان خواتین میں ارتقاء نظر آتی ہے'۔
صفی کے مطابق، اگر نئی حکومت اپنے وعدوں پر قائم رہی تو الیکشن کے بعد خواتین کے حقوق سے متعلق بہتر تبدیلیاں آئیں گی۔
![]() |
سارہ کی گاڑی میں سفر کرنے والی یونیورسٹی طالبہ بائیس سالہ لیدا نے کہا کہ افغان خواتین کو درپیش چیلنجز کے باوجود وہ ان کے مستقبل کے حوالے سے پر امید ہیں۔
'جب کوئی عورت گاڑی چلاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی ہو رہی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت بغیر کسی سہارے کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتی ہے'۔