‘عراق کی مدد کریں گے لیکن فوج نہیں بھیجیں گے’

شائع June 13, 2014 اپ ڈیٹ June 14, 2014
امریکی صدر بارک اوباما وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
امریکی صدر بارک اوباما وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔ فوٹو اے پی

واشنگٹن: امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ امریکا عراقی سیکورٹی فورسز کی دہشت گردوں کے خلاف مدد کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہا ہے لیکن ہم اپنی افواج واپس عراق نہیں بھیجیں گے۔

یاد رہے کہ عراق میں موجود القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی آ گئی ہے اور وہ رواں ہفتے دو بڑے شہروں تکریت اور موصل پر پہلے ہی قبضہ کر چکے ہیں۔

جمعہ کو دارالحکومت بغداد کے شمال میں 50کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر بعقوبہ میں عراقی سیکورٹی فورسز اورعسکریت پسندوں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔

اوباما نے کہا کہ یہ بات یقینی ہے کہ ہم عراق میں اپنی زمینی افواج نہیں بھیج رہے لیکن عراق کے مختلف حصوں پر قابض ہونے والے عسکریت پسندوں کے خلاف عراقی سیکورٹی فورسز کی مدد کیلیے دیگر طریقوں سے ان کی مدد کے پر غور کر رہے ہیں۔

’ہم امریکی افواج واپس عراق نہیں بھیج رہے لیکن میں نے اپنی قومی سیکورٹی ٹیم سے عراقی سیکورٹی فورسز کی مدد کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کی ہدایت کی ہے‘۔

عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت نے امریکا سے سنی شدت پسند تنظیم کے خلاف فوجی مدد طلب کی تھی۔

لیکن جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے عراقی حکومت کو کہا کہ وہ اس تباہی کی خود ذمے دار ہے کیونکہ وہ ملک کے سنی اور شیعہ دھڑوں کے درمیان موجود خلیج کو پاٹنے اور ان کے زخم مندمل کرنے میں ناکام رہی۔

’عراق میں امریکا خود کو کسی فوجی کارروائی میں شریک نہیں کرے گا کیونکہ کسی سیاسی حکمت عملی سے عاری عراق ہمیں مشترکہ طور پر کام کرنیکی کی کوئی یقین دہانی کرانے سے قاصر ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا نے آٹھ سالہ جنگ کے بعد 2011 میں عراق سے اپنی تمام افواج واپس بلا لی تھیں۔

اوباما نے کہا کہ ہم دیگر طریقوں سے عراقی افواج کی مدد کی کوشش کریں گے تاہم ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرایا کہ اس سلسلے میں عراقی رہنماؤں کو بھی فرقہ ورانہ اختلافات کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 جون 2025
کارٹون : 21 جون 2025