کابل:افغانستان کے شمالی صوبہ سمنگان میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کے 4اہلکاروں سمیت 11 افراد ہلاک ہوگئے۔

خبررساں ادارے اے پی کے مطابق واقعہ ہفتے کی رات کو صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک میں پیش آیا جس میں 6خواتین اور ایک بچے سمیت 4افراد ہلاک ہوئے۔

صوبائی گورنر کے ترجمان صدیق عزیزی نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکا خیز مواد کے ذریعے ایک منی بس کو نشانہ بنایا گیا۔

بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے 4 افراد الیکشن کمیشن کے اہلکار تھے جو کہ ہفتے کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اپنے فرائض سر انجام دینے کے بعد واپس جارہے تھے۔

تاہم یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ دھماکے کا اصل ہدف الیکشن کمیشن کے مرنے والے یہ اہلکار ہی تھے۔

افغان پولیس کے ترجمان راؤد احمدی کے مطابق ایک دوسرے واقعے میں طالبان نے مغربی صوبہ ہرات میں صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے پر سزا کے طور پر 11 افراد کی انگلیاں کاٹ ڈالیں۔

طالبان کی جانب سے افغان عوام کو تنبیہ کی گئی تھی کہ وہ ہفتے کو صدر حامد کرزئی کے جانشین کے لئے ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لیں۔

انتخابات کے دوسرے مرحلے میں شریک دونوں امیدواروں سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ اور سابق وزیر خزانہ اشرف غنی احمد زئی نے مغرب سے اپنے تعلقات میں بہتری اور امریکا سے سیکیورٹی معاہدہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے تحت مزید 2 سال تک تقریباً10 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں قیام کرسکیں گے۔

خیال رہے کہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ نے سب سے زیادہ 45 فیصد ووٹ حاصل کئے جن کا ون ٹو ون مقابلہ دوسرے مرحلے میں ورلڈ بینک کے سابق اہلکار اشرف غنی سے تھا جنہیں پہلے مرحلے میں 13 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے تاہم ہفتے کو ہونے والے انتخابات کے نتائج آنے تک کسی کی جیت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

الیکشن کمیشن کے چیئرمین احمد یوسف نورستانی کا کہناہے الیکشن ٹرن آؤٹ 60 فیصد رہا۔ ابتدائی اندازے کے مطابق ہفتے کو 1 کروڑ 20 لاکھ ووٹروں میں سے تقریباً70 لاکھ سے زائد افغان عوام نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیا جو کہ 5 اپریل کو ہونے والے پہلے مرحلے کے برابر ہے۔

احمد نورستانی کے مطابق سرکاری طور پر ابتدائی نتائج کا اعلان 2 جولائی کو کیا جائے گا جبکہ حتمی نتیجہ 22 جولائی کو جاری کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Iqbal Jehangir Jun 16, 2014 06:16pm
انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسی قبیح برائیوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں. دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور عوام پر اپنا سیاسی ایجنڈا بزور طاقت مسلط کرنا چاہتے ہیں. بم دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعے معصوم و بے گناہ انسانوں کو خاک و خون میں نہلانے والے سفاک دہشت گرد ملک و قوم کے کھلے دشمن ہے اور افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے . اسلام میں ایک بے گناہ فرد کا قتل ، پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے.معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، بم دہماکے کرنا،خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا دہشتگردی ہے ،جہاد نہ ہے،جہاد تو اللہ کی راہ میں ،اللہ تعالی کی خشنودی کے لئےکیا جاتا ہے۔ جہاد کا فیصلہ افراد نہیں کر سکتے،یہ صرف قانونی حکومت کر تی ہےلہذا طالبان اور دوسری دہشت گر جماعتوں کا نام نہاد جہاد ،بغاوت کے زمرہ میں آتا ہے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے جہاد فی سبیل غیر اللہ ہے۔ اسلامی ریاست کیخلاف مسلح جدوجہد حرام ہے۔ اِنتہاپسندوں کی سرکشی اسلام سے کھلی بغاوت ہے. طالبان دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں۔ عورتوں اور بچوں پر حملہ کرنا ملا عمر کے حکم کی خلاف ورزی بھی ہے۔