وہ بابا گرونانک کے کرشمے کے منتظر ہیں

اپ ڈیٹ 20 جون 2014
۔ —. فوٹو ستبیر سنگھ
۔ —. فوٹو ستبیر سنگھ

وہاں پہنچنے سے پہلے ہی یہ آپ کو کافی فاصلے سے دکھائی دے سکتا ہے۔ سرسبز میدانوں میں یہ اپنی مخصوص شکل اور رعب دار انداز کے ساتھ نظر آتا ہے۔

سکھ مذہب کے سب سے زیادہ مقدس مقامات میں سے ایک گردوارہ دربار صاحب کرتار پور کا سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں احترام کیا جاتا ہے۔

ہر سال ستمبر میں اور پھر نومبر میں دوبارہ، دنیا بھر سے سینکڑوں سکھ یاتری اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

یہ گرودوارہ شکرگڑھ کو جانے والی سڑک پر نارووال کے قصبے کے باہر واقع ہے۔ ہندوستان کی سرحد یہاں سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

تقریباً سہہ پہر چار بجے کا وقت ہوگا۔ سورج ڈھل رہا ہے اور کرتارپور کے میدانی علاقوں ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔

سرسبز میدانوں اور ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ ساتھ ہم بابا گرونانک کے آخری مسکن کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔ بابا گرونانک سکھ مذہب کے بانی تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ایک بم 1965ء کی جنگ کے دوران اس گردوارے پر گرا تھا، لیکن وہ پھٹ نہیں سکا۔ مرکزی داخلی راستے کے باہر جس جگہ یہ بم گرا تھا، اس سے کچھ فاصلے پر ایک چوکی نصب ہے۔

اس جگہ ایک تختی نصب ہے جس پر تحریر ہے کہ ’واہے گروجی کا معجزہ‘۔ واہے کا لفظ سکھوں میں اعلٰی ترین ہستی کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔

جیسے ہی ہم مرکزی صحن میں داخل ہوتے ہیں، تو ایک شخص ہمیں پلاسٹک کی ایک ٹوپی پیش کرتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ننگے سر داخل ہونا بے ادبی ہے۔

پانی کے حوض پر ہم نے اپنے پیر دھوئے اور پھر اس مقدس زمین پر قدم رکھا۔

یہاں سیر و تفریح کی غرض سے آیا ہوا ایک مختصر سا گروپ، قریبی قصبے سے خواتین اور بچے، پاس کے گاؤں سے مزدور اور ملحقہ علاقوں سے آئے ہوئے چند کسان موجود تھے۔

اندر ہمیں ایک بڑے گروپ کی صورت میں مردبیٹھے ہوئے دکھائی دیے، جن میں سے کچھ نے پگڑی پہنی ہوئی تھی اور کھیلوں کے سامان کا بیگ لیے ہوئے تھے۔

یہ گلزار سنگھ ہیں، جو برسبن، آسٹریلیا سے آئے ہیں۔ انہوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ انگریزی سے گھلی ملی پنجابی زبان میں بات چیت کی اور بچوں کو مٹھائیاں دیں۔

گلزار ان سینکڑوں سکھ یاتریوں میں سے ایک ہیں جو پاکستان جوڑ میلے میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ اس میلے کا حال ہی میں اختتام ہوا ہے۔ یہ سکھوں کے پانچویں گرو اَرجن دیو جی کی عقیدت میں منایا جاتا ہے۔

زیادہ تر سکھ یاتری لاہور میں سکھوں کے مقدس مقامات، ننکانہ صاحب یا حسن ابدال ہی جاسکے۔ کرتارپور کا مقام اس سال ان کی یاتر ا میں شامل نہیں تھا۔لیکن گلزار نے کہا کہ انہیں بہت خوشی ہے کہ وہ یہاں آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’اس جگہ کا بہت اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس میں عقیدت مندی کا عمل دخل ہوسکتا ہے۔ لیکن ان حالات کے تحت یہ بہت متاثر کن ہے۔‘‘

حالات سے ان کی مراد تقسیم کے وقت کا دور تھا۔ دراصل کرتارپور گرداسپور کا ایک حصہ تھا۔ یہ متنازعہ سرحد پر واقع قصبوں میں سے ایک تھا، جسے تین جون کے پلان کے تحت پاکستان کو دیا جانا تھا۔ لیکن ریڈکلف کے طے شدہ تقسیم کے نقشے کے ذریعے اسے چھین لیا گیا۔

جبراً کھینچی گئی اس لکیر نے ناصرف ہزاروں سکھوں کو بابا گرونانک سے دور کردیا، جو کئی دہائیوں سے یہاں آتے ہیں، اس کے علاوہ دربار صاحب کو ڈیرہ بابانانک سے بھی منقسم کردیا۔یہ سکھوں کے پہلے گروکا مزار ہے۔یہ دونوں بزرگ دریائے راوی کے الگ الگ کناروں پر آسودۂ خاک ہیں۔

لیکن خاردار تار باڑھ ان کی لگن کو روک نہیں سکے۔ عقیدت مندوں کی تسکین کے لیے ہندوستانی حکام نے سرحد کے دائیں طرف ایک درشن ستھائی یا دیکھنے کا مقام تعمیر کیا ہے۔

یہاں پر آکر عقیدت مند دوربین کے ذریعے بابا گرونانک کے مسکن کو دیکھ کر دعا کرسکتے ہیں۔

اس جیسے اہم مذہبی مقام کے لیے یہ بات نہایت غیرمعمولی ہے کہ یہاں اس مزار کی دیکھ بھال کے لیے مقرر چھ افراد مذہبی طور پر سکھ نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان انیل مسیحی ہیں، جن کا تعلق قریبی گاؤں سے ہے۔

انیل اور دیگر دو افراد اس مزار کی بے داغ صفائی ستھرائی کے لیے ذمہ دار ہیں۔ یہاں کا مالی ایک مسلمان ہے۔ یہ روزانہ لنگر کے لیے کھانا پکانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ یہاں آنے والے عقیدت مندوں کے لیے چوبیس گھنٹے کھانا دستیاب ہوتا ہے۔ان سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ کون ہیں۔

گردوارے کے داخلی راستے کے باہرایک دلکش باغ کے ساتھ ایک چھوٹی سی کٹیا ہے۔ یہ مزار کے نگہبان گوبند سنگھ کے کوارٹرز ہیں۔

گوبند سنگھ کے بھائی رمیش سنگھ اروڑا نے پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کا رکن بن کر ایک تاریخ رقم کی ہے۔

ہمیں چائے اور بسکٹ پیش کرنے کے بعد گوبند سنگھ نے بتایا کہ وہ حکومت اور مزار کی دیکھ بھال کے لیے محکمہ اوقاف کی مددکی فراہمی سے بہت خوش ہیں۔

لیکن جب ہم نے ویزا فری کوریڈور کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بے پروائی کے ساتھ کہا ’’یہ حکومت کا معاملہ ہے اور اس کو ہی فیصلہ کرنا ہے۔‘‘

گلزار جنہوں نے اس سے پہلے ہندوستان میں سکھ بزرگوں کے مزارات پر حاضری دی تھی، انہیں یہاں بھائی چارہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ انہوں نے کہا ’’یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔یہاں سب مل کر کھاتے ہیں۔ مل کر دعا مانگتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ ہندوستان میں ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ ڈیرہ بابا نانک میں رہے ہیں۔ تو انہوں نے نہایت اشتیاق کے ساتھ جواب دیا ’’نہیں لیکن اب اگر میں گیا تو ضرور رہوں گا۔‘‘

سرحد کے دونوں اطراف کے سکھ دونوں مزارات کے درمیان ویزا فری کوریڈور کی تشکیل کے 1998ء سے زور دے رہے ہیں، جس کے ذریعے انہیں ہندوستان سے بابا گرونانک کے مزار پر پیدل آنے کی اجازت مل جائے گی۔

وزیراعظم نواز شریف کے نئی دہلی کے حالیہ دورے کے موقع پر سکھوں کی تنظیم دل خالصہ نے دونوں رہنماؤں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں بات کریں تاکہ کچھ نتیجہ حاصل ہو۔ لیکن اب تک ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ دونوں فریقین نے پس پشت ڈال رکھا ہے۔

گوبند سنگھ کہتے ہیں ’’ہم چاہتے ہیں کہ کرتارپور کو ایک بین الاقوامی مقام بنایا جائے۔ اس مقام پر سرحد کو کھول دیا جائے۔ یہ محض انڈیا یا پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام سکھوں کے لیے عظیم نعمت سے کم نہیں ہوگا۔‘‘

پردیس سے آئے ہوئے گلزار اتفاق کرتے ہیں کہ ہندوستان و پاکستان دونوں ہی کو چاہیٔے کہ اجتماعی بھلائی پر کام کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ سیاحت، غیر ملکی سرمایہ کاری، یہ چیزیں دونوں ہی ملکوں کی اشد ضرورت ہیں۔ اگر معجزانہ طور پر دربار صاحب کھول دیا جاتا ہے تو دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان امن قائم ہوسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

aisha Jun 22, 2014 09:26pm
Is this chanel crazy work for pmln and geo and they think no body nose they have no news about khan and kashmir