انقلاب کی آمد

اپ ڈیٹ 23 جون 2014
قادری صاحب کا سیاسی قدوقامت اونچا کرنے میں خود ان کے پلان اور ہوشیاری سے زیادہ وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے اپنائے جانے والے طریقہ کار کا زیادہ ہاتھ ہے-
قادری صاحب کا سیاسی قدوقامت اونچا کرنے میں خود ان کے پلان اور ہوشیاری سے زیادہ وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے اپنائے جانے والے طریقہ کار کا زیادہ ہاتھ ہے-

چلیں صاحب، داعی انقلاب، حضرت علامہ شیخ الاسلام جناب مکرمی طاہر القاری صاحب، بلآخر سرزمین پاکستان پر ایک بار پھر تشریف لے ہی آئے- اخبارات کی شہ سرخیاں ہوں، ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کا موضوع یا نجی محفلوں میں پسندیدہ ٹاکنگ پائنٹ، ان کی پاکستان آمد اور اس کے بعد کی ممکنہ صورتحال ہی رہی اور امید یہی ہے کہ مستقبل قریب میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا-

قادری صاحب کی پاکستان آمد کے مقاصد اور ان کے حصول کے لئے اپنائے جانے والے طریقہ کار کے بارے میں مختلف اطراف سے مزے مزے کے تجزیے اور امکانات کا اظہار کیا جا رہا ہے- تاہم اس حوالے سے کم و بیش ایک اتفاق رائے بہرحال نظر آتا ہے اور سوائے قادری صاحب کے جان نثاروں کے سبھی کا یہ ماننا ہے کہ قادری صاحب کا سیاسی قدوقامت اونچا کرنے میں خود ان کے پلان اور ہوشیاری سے زیادہ وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے اپنائے جانے والے طریقہ کار کا زیادہ ہاتھ ہے-

کوئی جمہوری تو کیا شاید کوئی آمرانہ حکومت بھی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے ساتھ اتنی سنگدلی سے پیش نہ آتی جیسا بدترین مظاہرہ ہم نے پچھلے دنوں لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں دیکھا-

خیر، اس بات کو جانے دیں، سیاست میں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں- اور اگر کوئی غلطیاں نہیں کرے گا تو بھلا کیا سیاست کرے گا- ہو گئی غلطی حکومت سے، اب اس کے جرم میں حکومت مستعفی تو ہونے سے رہی- کیا ہمارے ملک میں کسی بھی سانحے کی ذمہ داری لیتے ہوئے حکومت تو چھوڑیں، کسی چھوٹے سے بھی اہلکار یا وزیر کی جانب سے استعفیٰ دینے کی کوئی روایت ہے جو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر حکومت پنجاب سے استعفیٰ کا مطالبہ اتنی شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے؟

چلیں صاحب یہ بھی رہنے ہی دیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی بتنگڑ بنانا تو ہمارے سیاستدانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے- آخر کچھ لوگوں کے بقول سیاستدانوں کو بھی تو اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لئے کوئی نہ کوئی ایشو چاہئے ہوتا ہے- لیکن قادری صاحب کے معاملے میں تو سیاستدانوں اور حکومت ہی کی طرح ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی برابر کا ذمہ دار معلوم ہو رہا ہے-

شاید تمام بڑے چینلز سے وابستہ کوئی نہ کوئی صحافی، قادری صاحب کے اس سفر میں ان کے ہمراہ تھا، اور جب ہمراہ تو یقیناً اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ قصری صاحب کے ساتھ سفر کرنے سے ان کو اور ان کے چینلز کو فائدے حاصل ہوں گے-

فائدے کیسے صاحب، یہ معاملہ بڑھی ہوئی ٹی آر پیز کا ہے اور کچھ نہیں، بیسیوں گھنٹے قادری صاحب کی آمد کی کوریج پر لگانے والے یہ چینلز ان سویلینز کی کوریج کیوں کریں گے جو کہ دہشت گردوں کے خلاف حال ہی میں پاک فوج کی جانب سے شروع کئے جانے والے آپریشن ضرب عضب کے بعد سے وزیرستان چھوڑ رہے ہیں-

ہمارے سیاستدانوں کا حال تو یہ ہے کہ آج تک ہمارے قانون ساز انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسنز کی باقاعدہ تعریف یا انہیں ڈیفائن بھی نہیں کر پائے، ان کی امداد، رہائش، کھانے پینے، بحالی اور ان کے مال اسباب اور گھروں کی تعمیر نو کے لئے مناسب قانون سازی کرنا تو دور کی بات ہے-

آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد، سرکاری اعداد و شمار کے حساب کے چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے- پاک فوج نے، ان متاثرین کیلئے ایک ماہ کا راشن اور ایک دن کی تنخواہ دینے کا اعلان پہلے ہی کر کر دیا ہے اور اس وقت یہی ایک ادارہ صحیح معنوں میں ان بے گھر افراد کی امداد میں مصروف ہے-

ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے تو بس خبر نشر کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے جیسے- لیکن ان افراد کی مدد کے لئے لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کا خیال اب تک ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے ایجنڈے پر کہیں نظر نہیں آتا-

اب ایسے مصیبت کے مارے لوگوں کی کوریج یا ان کی حالت زار دکھانے سے تو ان کی ٹی آر پیز بڑھیں گی نہیں لہٰذا بہتر یہی سمجھا گیا کہ قادری صاحب پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جائے، افراتفری نظر آئے گی تبھی تو چنیل کی ٹی آر پی بڑھے گی-

جیو نیوز کے معاملے اور کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے بعد میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے کردار کے بارے میں سوالات بہت شدت سے اٹھے تھے- یہ شدت ایک موقع پر اتنی زیادہ محسوس ہو رہی تھی کہ اس بات کا گمان ہونے لگا تھا کہ شاید چینلز کم از کم خاص طور پر ٹی وی پر کیا چیز براہ راست نشر ہونی چاہئے، اس حوالے سے کوئی ضابطہ اخلاق یا کسی کوڈ پر متفق ہو جائیں گے- تاہم ایسا نہ ہو سکا اور مستقبل قریب میں اس کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے- صاحب یہ ٹی آر پیز کی جنگ ہے، چینلز وہی دکھائیں گے جس سے ان کی ٹی آر پیز بڑھیں-


بہت سال پہلے ایک انگریزی فلم میں میڈیا کے بارے میں ایک جملہ سنا تھا جس کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے 'میڈیا کا فرض، مصیبت کے ماروں کو آرام پہنچانا اور آرام و سکون سے بیٹھے ہوؤں کا سکون غارت کرنا ہے

its the duty of media to comfort the afflicted and afflict the comfortable

مجھے نہیں معلوم کہ میڈیا کے کردار کے حوالے سے یہ تعریف معنوی اعتبار سے درست ہے یا نہیں، لیکن بظاہر اس تعریف سے اختلاف کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی سمجھ نہیں آتی- بہرحال صحیح یا غلط، لیکن ہمارا الیکٹرانک میڈیا یہ کام بالکل نہیں کر رہا- مصیبت کے مارے ہماے عوام کو ہمارا میڈیا ہر رات ایک نئے ڈرامے میں الجھا دیتا ہے بجائے اس کے کہ وہ قانون سازوں اور سیاستدانوں پر اصلی اور حقیقی مسئلوں کے مناسب حل کے لئے دباؤ ڈالنے کے لئے رائے عامہ ہموار کرے- ہمارا میڈیا تو بس اپنے ٹی آر پیز کے چکر میں ہمیں قادری صاحب کی کرامات، گلو بٹ کی کارستانیاں اور ایک دوسرے کے پروگراموں کی غلطیاں دکھانے میں لگا رہے گا-

تبصرے (1) بند ہیں

Jawad Khaki Jun 24, 2014 04:49pm
Awesome. You exposed a bitter truth.