کراچی کے قاتل

اپ ڈیٹ 25 جون 2014
کراچی میں تین مارچ 2013ء کو ہوئے ایک بم دھماکے کے بعد تباہ شدہ اپارٹمنٹس میں آگ لگی ہوئی ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
کراچی میں تین مارچ 2013ء کو ہوئے ایک بم دھماکے کے بعد تباہ شدہ اپارٹمنٹس میں آگ لگی ہوئی ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی پاکستان کا جہاں اقتصادی و معاشی مرکز ہے، وہیں یہ شہر ملک بھر کے تمام باشندوں کے لیے اپنا دامن پھیلائے رہتا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد شہر ہے کہ جہاں ملک کے مختلف اطراف سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور انہیں ناصرف اس شہر میں مناسب روزگار میسر آتا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ یہاں شہری تمدن کے کچھ اثرات کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آنے والوں کو فرسودہ قسم کی سماجی پابندیوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔

لیکن قلندرانہ مزاج رکھنے والے اسی شہر میں روز اتنی ہی خونریزی ہوجاتی ہے، جس قدر کے لاہور کے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہوئی تھی، مثال کے طور پر آج ہی کی خبر کو لے لیجیے جس کے مطابق فائرنگ اور دیگر پُرتشدد واقعات میں تین پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے دوہزار تیرہ کو کراچی کے عوام کے لیے سب سے زیادہ خونی سال قراردیا تھا۔

اس سال تین ہزار دو سو اکیاون شہری سیاسی تشدد، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہو گئے تھے۔

کراچی میں امن و امان کی بدترین صورتحال اور روزانہ کی ہلاکتوں پر عالمی میڈیا میں بھی اکثر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ پچھلے سال برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی نے لکھا تھا کہ ’’کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہ چکا ہے اور اب بھی اسے پاکستان کا ’تجارتی دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے لیکن اگر یہاں ہونے والے جرائم پر نظر ڈالی جائے تو اسے ’جرائم کا دارالحکومت‘ کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘

فارن پالیسی میگزین جو بین الاقوامی سیاست اور عالمی امور کے اہم موضوعات پر مضامین شایع کرتا ہے، اس کی پرنٹ اور آن لائن اشاعت سے دنیا بھر کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔

اس عالمی جریدے نے اپنی حالیہ اشاعت میں ایوان سیگل کی ایک تحریر ’کراچی کے قاتل‘ کے زیرِ عنوان شایع کی ہے۔

ایوان سیگل نے آٹھ جون کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ گوکہ اس حملے سے اس ساحلی شہر کی تنصیبات کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچایا، تاہم اس نے قوتِ مقابلہ کو سنگین نوعیت کے زخم پہنچائے ہیں۔

ایوان سیگل لکھتے ہیں کہ اس حملے نے پاکستان کی سیکیورٹی کی کمزوریوں کو بے نقاب کردیا ہے اور اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ مسلح افراد کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ جب چاہیں وہ ملک کے شہریوں کی زندگیوں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیں۔

اور کراچی کے شہریوں کے لیے یہ کوئی انکشاف نہیں ہے، اس لیے کہ وہ دیکھتے ہی ہیں کہ ان کی سڑکوں اور ان کے گھروں کی حفاظت کے حوالے سے ریاست کی پکڑ انتہائی کمزور ہوچکی ہے۔

کراچی کے شہریوں کے بارے میں ایوان کا کہنا ہے کہ وہ تو برسوں سے اس طرز کے ڈرامائی سیاسی تشدد برداشت کررہے ہیں۔ وہ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کراچی کی سڑکوں پر تشدد کی خوفناک صورتحال سے لے کر 2009ء میں محرم الحرام کے جلوس پر ہوئے حملے کی یاد دلاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس شہر میں ہونے والے بڑے دہشت گرد حملوں کو تو اخباری شہہ سرخیوں میں جگہ مل جاتی ہے، لیکن کراچی کو 2013ء کے دوران تین ہزار دوسو سے زیادہ پرتشدد ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا، اور پچھلے چار سالوں میں یہ تعداد دس ہزار چھ سو بنتی ہے، جن میں سے زیادہ تر کو دہشت گردی میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ایوان نے لکھا ہے کہ انہوں نے مارچ 2014ء کا بہت سا وقت کراچی کی سڑکوں، تنگ گلیوں اور ٹرین کی متروکہ پٹریوں کی خاک چھاننے میں صرف کیا تھا۔اس دوران اس شہر کی اربن ڈیویلپمنٹ کے بارے میں ایک پروجیکٹ کے لیے کراچی کی معطل سرکلر ریلوے کی باقیات کی تصاویر بھی لی تھیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’’شہر کے اردگرد میرے سفر کے دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ ڈرائیور ایسے چوراہوں پر جانے سے گریز کرتےہیں جو ٹریفک پولیس کی ضمیر فروشی اور بدعنوانی کے لیے مشہور ہیں۔مثال کے طور پر جن اہلکاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں کوئی خلل واقع نہ ہو، انہی ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو میں نےدیکھا کہ وہ اپنا روزانہ کا بھتہ وصول کرنے کے لیے کاروں اور بسوں کی طویل قطار لگوا کر ٹریفک کی روانی کو متاثر کررہے ہیں۔‘‘

ایوان سیگل اپنے دوستوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان پر بھی حملے ہوئے یا انہیں لوٹا گیا، لیکن انہوں نے ان جرائم کی رپورٹ درج نہیں کرائی، اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس ملک میں جب تک روپے کا گریس نہ لگایا جائےسرکاری مشنری میں حرکت ہی پیدا نہیں ہوتی۔

وہ کہتے ہیں کہ شہر کے شمال مغربی علاقوں اورنگی اور بلدیہ میں بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضہ کرکے گھر تعمیر کیے گئے ہیں۔

ایوان کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کو بعض سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے، جو ان کے ووٹ کے بدلے میں ان کے اس غیرقانونی قبضے کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پانی بجلی اور دیگر سہولتیں کے حصول میں مدد دیتی ہیں۔ایک مرتبہ معقول تحفظ حاصل ہوجانے کے بعد یہ مخصوص علاقے پشتون نسل کے لوگوں کے لیے ایک مضبوط گڑھ بن گئے ہیں۔ انہی علاقوں میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو طالبان کی سوچ کے حامی ہیں۔

ایوان سیگل کہتے ہیں کہ انہوں نے کراچی میں اپنے تین ہفتوں کے قیام کے دوران تقریباً پانچ گھنٹے روزانہ کے حساب سے کراچی کی سڑکوں کی خاک چھانی، اس دوران ان کا شہر کے بہت سے مختلف علاقوں، خشک پڑے کھیتوں اور کھیل کے میدانوں، ماضی میں کاشتکاری کے لیے استعمال ہونے والی زمینوں، صنعتی علاقوں اور پارکوں سے گزر ہوا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس دوران کوئی بھی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔

ان کے خیال میں ایسا اس لیے تھا کہ وہ خوش قسمت تھے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اجنبی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آپ کو کوئی جانتا نہیں ہوگا تو آپ کو ہدف نہیں بنائے گا، نہ ہی دھمکی دے گا۔

لیکن ان کی نظر میں یہ بات اس شہر کے باشندوں پر صادق نہیں آتی ہے، انہیں لازمی طور پر روزانہ اپنے تحفط کا راستہ تلاش کرنا چاہیٔے۔

ایوان سیگل کہتے ہیں کہ کراچی کے شہری دہشت گردی سے پاک زندگی کے مستحق ہیں، وہ شہری زندگی کی بنیادی افعال کے ساتھ ایک شہر کا بھی حق رکھتے ہیں، جن میں محفوظ سڑکیں، بہتر ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی،گھر اور تعلیم شامل ہیں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Jun 26, 2014 10:46am
جب ہم چھوٹے تھے کراچی کے بارے میں ہمیشہ سنتے تھے بہت خوبصورت شہر ہے ، سمندر ہے وہاں ، اونٹ کی سواری بھی کی جاتی ہے ، طارق روڈ کی رونق کا سنتے تھے اور مزے کی بات مطالعہ کے شوق کی بناپر تما م رسائل میں بہت جلد خرید کر اپنی پاکٹ منی بچا کر خرید لیتی ، اور تمام کے تمام رسائل کراچی سے ہی شائع ہوتے ، بچوں کا ایک رسالہ آنکھ مچولی جو کراچی سے شائع ہوتا تھا اسکے لئے ہم سب بچوں میں بڑی لڑائی ہوتی تھی لیکن اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ کراچی میں ایسی لڑائی ہوگی ، ایسی قتل و غارت گری ہو گی کہ بچوں کی دلچپسی کا وہ وہ واحد ذریعہ بھی ہم سے چھن جائے گا ۔۔۔۔ کتنی دہائیاں گذر گئیں کراچی کے بارے مٰیں کچھ اچھا نہیں سنا ، مارنے والوں نے تو مسیحائوں کو بھی نہ چھوڑا نہ اساتذہ کو مارتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپے ، نہ امام بارگاہوں اور مساجد میں دہشتگردی کا شکار ہونے والوں کے لواحقین سے انھیں لاج آئی ، میرے ملک کے سب سے بڑے اور پیارے شہر کو کس کی نظر کھا گئی ؟ کہنا تو بہت آسان ہے کہ آج ٹارگٹ کلنگ میں فلاں مر گیا لیکن اس ایک موت سے کتنی آنکھوں میں امیدوں کے چراغ بجھ گئے اس پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔