اسلام آباد: سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ پچھلے پانچ سال کے دوران خواتین کے ساتھ ریپ کے مرتکب کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوا اور سزا بھی نہیں ملی۔

سینیٹر صغریٰ امام نے انسداد زنا بالجبر کے ترمیمی بل کے حوالے سے کہا کہ ڈی این اے اور فرانزک ٹیسٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے مجرموں کو سزا نہیں ملتی، ریاستی اداروں کے خوف کی وجہ سے مظلوم خواتین اور ان کے لواحقین تھانے کچہرے سے ڈرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ترمیم کا بنیادی مقصد پاکستان پینل کوڈ، قانون شہادت، سی آر پی سی کی کمزوریوں کو دور کرنا ہے تاکہ متاثرہ خواتین کو انصاف مل سکے۔

قائد ایوان سینیٹر راجہ محمد ظفر الحق نے کہا کہ پولیس کی تفتیش کا نظام کمزور ہے، تھانیدار اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لئے کوشش کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تفتیش کے ناقص طریقہ کار کی وجہ سے مجرموں کو سزائیں نہیں ملتی۔

سینیٹر صغریٰ امام نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کی متفقہ قرارداد منظور کر لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں نے غلط تشریح کی جس کی وجہ سے اسلامی نظریاتی کونسل نے تحفظات کا اظہار کیا کہ جنوبی پنجاب میں ریپ کے مجرموں کو اچھے کردار کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عدالتوں سے رہائی آسان ہو جاتی ہے اور تجویز یا کہ تفتیش اور عدالتی طریقہ کار دونوں میں بہتری کی ضرورت ہے اور کمیٹی کو آگاہ کیا کہ معروف قانون دانوں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ پارلیمنٹرینز کی گول میز کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔

اس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر کاظم خان اور راجہ محمد ظفر الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ اور چاروں صوبائی کورٹس کے صدور سپریم کورٹ اور صوبائی بار کونسلز کے ایک ایک رکن کو بھی سفارشات کا جامع مسودہ تیار کرنے میں شامل کیا جائے۔

سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ الزام لگانا آسان اور ثابت کرنا مشکل ہے اس لئے سائنسی انداز سے تحقیق و تفتیش کی سینیٹر صغریٰ امام کی تجویز پر عمل کیا جائے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر کی اس تجویز کہ جہاں خواتین کو آجر اور اجیر کی سطح پر رکھا گیا ہے، وہاں اس کا دائرہ تعلیمی اداروں تک بڑھایا جائے۔

اراکین کمیٹی نے متفقہ طور پر قانون کا اطلاق ہر جگہ کرنے کی منظوری دی۔

خصوصی سیکرٹری وزارت قانون رضا خان نے کہا کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کی سزا ایک سال سے بڑھا کر تین سال کر دی گئی ہے۔

سیکرٹری رضا خان نے کہا کہ تحفظ حقوق نسواں اور انسداد زنا بالجبر کے لئے خصوصی قانون بنانے کے لئے پارلیمنٹ سے قانون سازی کر لی جائے تو آسانیاں پیدا ہوں گی۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی میں طالبہ کو ہراساں کرنے والے یونیورسٹی رجسٹرار کو محکمانہ انکوائری کمیٹی اور یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے مجرم قرار دے کر معطل کر دیا جس کے بعد متعلقہ افسر نے وفاقی محتسب میں اپیل کر دی اگر انسداد حقوق نسواں پر مکمل عمل کیا جاتا اور اس کی کمزوریوں کو دور کر دیا جاتا تو خواتین کو بہتر تحفظ ملتا۔

ان کا کہنا تھا کہ کل دوبارہ قائداعظم یونیورسٹی میں ایک طالبہ کو ہراساں کرنے کا واقعہ پیش آیا ہے، ملازمت پیشہ خواتین کی کام کرنے کی جگہوں اور پرائیویٹ اداروں کے علاوہ اس قانون کا دائرہ تعلیمی اداروں تک بھی بڑھایا جائے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ خواتین انصاف نہ ملنے کے خوف اور معاشرتی سطح پر بے عزیتی اور رسوائی کی وجہ سے عدالتوں میں گواہوں کے نہ پیش ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں