اندھیر نگری چوپٹ راج

اپ ڈیٹ 28 جون 2014
ذہنی دیوالیہ پن کے ساتھ، لاء اور آرڈر کا اصل چیلنج ہماری نااہلی، نالائقی اور بےحسی کے کلچر کا نشہ آور ملغوبہ ہے-
ذہنی دیوالیہ پن کے ساتھ، لاء اور آرڈر کا اصل چیلنج ہماری نااہلی، نالائقی اور بےحسی کے کلچر کا نشہ آور ملغوبہ ہے-

ماڈل ٹاؤن آپریشن جس میں دس قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور اس کے بعد جو ہوا وہ ان خرابیوں پر روشنی ڈالتا ہے جو آج پاکستان کو لاحق ہیں-

حکومت کے اختیارات کے جواز کی دھجیاں اڑچکی ہیں- حکومت پنجاب کی گُلّوبٹ اسٹائل کی حکمرانی نے جمہوریت کی حفاظت کے دعوے داروں کو اور بھی مشکل میں ڈال دیا ہے کہ آیا اس موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے تسلسل کی وکالت کریں کہ یہی ہماری خرابیوں کا سب سے بہترین طویل المیعاد حل ہے- شہبازشریف کے پاس کیا بہانہ ہے اس خوںریزی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کیلئے جوان کی ناک کے نیچے اور ان کے اپنے پڑوس میں ہوئی-

ارباب اختیار استعفیٰ کیوں دیتے ہیں؟ کیا اس لئے کہ وہ بھیانک جرائم میں ملوث ہوتے ہیں یا حکومتوں کی اخلاقی ذمہ داری کی تلافی کیلئے ایسا کرتے ہیں؟ جنوبی کوریا کے وزیراعظم، چنگ ہونگ-ون، نے اپریل میں سیوول فیری کی تباہی پر استعفیٰ دیا- ان کا فیری کے ڈوبنے میں یا بچاؤ کے کام میں بدنظمی میں کوئی ہاتھ نہیں تھا "میرا اپنی سیٹ پر بیٹھے رہنا انتظامیہ کے لئے دشواری کا سبب ہوتا ،" استعفیٰ کے بعد بیان میں انہوں نے کہا- "۔۔۔ میں حکومت کی جانب سے ان تمام مسائل کیلئےمعذرت خواہ ہوں جو اس حادثہ کی روک تھام سے لیکر فوراً نمٹنے کے دوران پیش آئے"-

شہبازشریف نے بڑی سنجیدگی سے اعلان کیا ہے کہ اگر جوڈیشیل کمیشن ان کو طاہرالقادری کے حامیوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھیراتا ہے تو وہ استعفیٰ دے دینگے- لیکن اس وقت تک کیوں نہ انتظار کرلیں جبتک کہ عدالت انہیں قتل اورخوںریزی کا قصوروار نہ قرار دیدے؟

شہباز شریف نے پنجاب پر پچھلے چھ سال سے آہنی ہاتھوں سے حکومت کی ہے- ان کی نگہبانی میں منصوبہ بندی سے کئے گئے آپریشن میں دس لوگ قتل کردئے گئے اور درجنوں شدید زخمی ہو گئے، جہاں پولیس نے لوگوں پر سامنے سے گولیاں چلائیں اور سب نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو بلا امتیازپولیس کی درندگی کا نشانہ بنتے ہوئے ٹی وی پر براہ راست دیکھا- اور شہریوں کے ساتھ جس چیز کی موت ہوئی وہ یہ روایت تھی کہ آمریت پسند حکومتوں کے تحت کام کرنے والے غیرریاستی ہاتھ اچھی حکمرانی کا پیکیج ہوتے ہیں-

اور اب شہبازشریف کیا کرنا چاہتے ہیں؟ وہ چھوٹے لوگوں کوسزا دینا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی انتظامیہ کی ناکامی اورمجرمانہ غفلت کا ذمہ دار ٹھیرانا چاہتے ہیں- دوسروں پر ذمہ داری ڈالنا اور اپنے وفاداروں اور ماتحتوں کو قربانی کا بکرا بنانے کے فن کو ہماری حکمران اشرافیہ نے اوج کمال تک پہنچا دیا ہے- چھوٹے شریف نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اس روایت کی تقلید کرینگے اور اس کو مستحکم کریں گے-

ماڈل ٹاون کے خون خرابے کی سب سے فیاضانہ وضاحت یہ ہے کہ پی ایم ایل-ن طاہر القادری کے حامیوں کیلئے مشکلات پیدا کرنا چاہتی تھی اور اگر ان کا پروگرام اس مہینے کے آخر میں سڑکوں پر بھیڑ بھاڑ اکٹھا کرنے کا ہے تو ان کے دلوں میں خوف پیدا کرنا چاہتی تھی- یہ آپریشن اس دن انجام دیا گیا تھا جب ایک نیا انسپکٹر جنرل اپنے عہدے کا چارج لے رہا تھا اور سارا امکان یہی ہے کہ اس کارروائی کی منصوبہ بندی میں شاید اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا- لیکن اس کے باوجود بھی اس نے پریس کانفرنس بلائی اور اپنی فورس کی قاتلانہ کارروائی کو ( Self-Defence) خود حفاظتی عمل کہہ کر جائز قرار دیا-

اپنے نئے عہدے کے پہلے ہی دن ایک مشکل صورت حال میں گھر جانا جو ان کے سیاسی حکام کی پیداکردہ تھی، مشتاق سکھیرا نے مایوسی محسوس کی ہوگی- لیکن اس کو ذاتی ہتک کے طور پرکیوں لیا جائے جب کہ سب سے بڑا عہدہ داؤں پر لگا ہو جس کیلئے پولیس سروس کا ہرفرد خواب دیکھتا ہے اور وہ اس کو اپنے کیریئر کے آخری زمانے میں ملا ہو؟ کیوں نہ آئینے سے چند دن پرہیز کیا جائے؟ یا زیادہ بہتر یہ ہے کہ پولیس کا فرض اپنے سیاسی حکام کے جائزاحکام ماننا ہے یا شہریوں کی خدمت کرنا ہے وغیرہ؟ یہ سب اب فرسودہ اور متروک باتیں ہیں اور اب انہیں ترک کردینا چاہئے-

ذہنی دیوالیہ پن کے ساتھ، ہمارا اصل لاء اور آرڈر کا چیلنج ہماری نااہلی، نالائقی اور بےحسی کے کلچر کا نشہ آور ملغوبہ ہے- اگر طاہرالقادری کے حمایتیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ 2014ء میں یہ انقلابی مارچ 2012ء کی طرح کا پارک میں چہل قدمی کی طرح کا نہیں ہوگا، تو وہ بھی اچھی حکمرانی والے شریف اور ان کے پولیس اور ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ کے چہیتے بابو ڈھنگ سے نہیں کرپائے-

منصوبہ بہت آسان نظر آتا تھا- انتظامیہ اور پولیس پر طاہرالقادری کے ہیڈ کوارٹر کے باہرغیرقانونی رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے حملہ ہوگا، مگر ایسا لگے گا کہ" گلو بٹ" جو گھروں کو آگ لگارہے ہیں، توڑپھوڑ کررہے ہیں اوراور پولیس پرحملے کررہے ہیں وہ طاہرالقادری کے انقلابی ہیں، اور پولیس اپنے بچاؤ اور امن وامان قائم کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کرنے پر مجبور ہوگئی ہے- ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں طاہرالقادری کے حمایتی پولیس کےہاتھوں مار کھائیں گے- اس طرح سے بات ان کی سمجھ میں آجائیگی: کہ ٹھیک ہے باہر ضرور نکلو لیکن پھر اپنی جان کے خطرہ کے عوض-

طاہرالقادری پی ایم ایل کو الزام دینگے- جواب میں پی ایم ایل الزام تراشی کریگی- اور چونکہ پورے پاکستان کی توجہ شمالی وزیرستان کے آپریشن کی جانب ہے، بدقماش طاہرالقادری، جو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کوایسے وقت میں پٹڑی سے اتارنا چاہتا ہے اور قوم کی توجہ ادھر سے ہٹانا چاہتا ہے جب کہ قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے، اور پھر طاہرالقادری ولین بن جائیں گے-

لیکن یہ سب بالکل الٹا ہوگیا- آپریشن کے دوران کمانڈ اور کنٹرول موجود ہی نہیں تھا- نہ تو پانی سے مارکرنےوالی توپیں لائی گئیں۔ نہ آنسو گیس کااستعمال ہوا، نہ ربر کی گولیاں فائر کی گئیں- اور گلو کے ساتھ، پولیس کی درندگی، بدانتظامی اور بےحسی کا مظاہرہ پوری قوم نے دہشت کے عالم میں براہ راست ٹی وی پر دیکھا- کیا یہی وہ پولیس فورس ہے جو پورے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف دفاع کی پہلی لائن کے طور پر عمل کریگی؟ اور کیا یہی اس وقت بھی قیادت کریگی جب شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد زیادہ مشکل حالات ہونگے اورشہری علاقوں میں تشدد پسندوں اور حکومت کے درمیان چپقلش ہوگی؟

اگر خود ترسی کو کبھی معاف کرنے کی ضرورت ہے تو وہ یہی وقت ہے- ہم میں سے بہتیرے پاکستان میں سول-ملٹری نامسابقت کی شکایت کرتے ہیں جس نے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے وہ طاہرالقاری کو اس کھیل کا ایک پرانا مہرہ سمجھتے ہیں- لیکن کیا ہم ایک مدہوش سیاسی اشرافیہ سے جو خودساختہ شان وشوکت کے مغالطہ میں مبتلا ہو تاریخی ناہمواریوں کو درست کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں--- ایک ایسی سیاسی اشرافیہ جوشہریوں کو ہلاک کئے بغیرجو اپنے پاؤں میں خود گولی مارنے کے مترادف ہے، ایک سیاسی بونے کے گھر کے باہر معمولی ناکہ بندی کو ہٹانےکی صلاحیت بھی نہیں رکھتی ہے؟

اگر کہیں کبھی آرٹیکل 184(3) سوؤ موٹو لگانے کے اختیارات دیتا ہے تو یہ وہ واقعات ہیں جہاں ریاست اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی ہے اورمتاثرہ شہریوں کو انصاف ملنے کے امکانات کم سے کم ہوتےہیں تاآنکہ سپریم کورٹ ان کے خلاف شہریوں کی مدد کرنے کو تیار نہ ہو- گم شدہ لوگوں کے کیس کی مانند ماڈل ٹاؤن کا قتل عام بھی ان کی ایسی ہی توجہ کا مستحق ہے- عالی مرتبت جج صاحبان کی خدمت میں بصد احترام عرض ہے کہ کیا انصاف فرقہ پرستی کی جانب بھی اندھا ہے؟ کیا پنجاب کی سیاسی اشرافیہ کا غیرقانونی عمل بھی عدالتی جانچ پڑتال کا سبب بن سکتا ہے؟

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں