نانگا پربت پر سیاحوں کا قتل، 'ہدف امریکی شہری تھا'

شائع June 29, 2014

گلگت: ایک سال قبل گلگت بلتستان میں نانگا پربت کے بیس کیمپ میں قتل کیے گئے غیر ملکی کوہ پیماؤں کے حوالے سے اہم انکشاف ہوا ہے جہاں حکام کے مطابق دہشت گرد ایک چینی نژاد امریکی شہری کو اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے اغوا کرنا چاہتے تھے۔

گزشتہ سال بائیس جون کو 8 ہزار 126 میٹر بلند پاکستان کی دوسری بڑی چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ میں کوہ پیماؤں کا قتل گزشتہ دہائی میں ملک میں غیر ملکیوں سیاحوں پر ہونے والا سب سے خطرناک حملہ تھا۔

اس واقعے کو ایک سال گزرنے کے بعد بھی شمالی علاقے اور گلگت بلتستان میں سیاحت تاحال متاثر ہے جبکہ حملے میں ملوث دس مشتبہ ملزمان تاحال فرار ہیں جبکہ تفتیش سے جڑے ذرائع نے ان افراد کے قصور وار ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے واقعے کو ایک سال گزرنے پر متعلقہ حکام، مشتبہ شدت پسندوں اور مذاکرات کاروں کے انٹرویو کیے تاکہ اس واقعے کی وجوہات اور اثرات کی واضح تصویر کشی کی جا سکے۔

واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں تین یوکرینی، چینی نژاد امریکی شہر چَین ہونگلو سمیت دو چینی، دو سلواکین، ایک لیتھونین اور ایک نیپالی باشندہ شامل تھا۔

تاہم شدت پسندوں کے ذرائع کے مطابق اس واقعے کا اصل ہدف دہری شہریت کا حامل چینی باشندہ تھا۔

اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب جون 2013 کے اوائل میں مقامی جہادیوں نے دیگر جنگجوؤں سے رابطہ کر کے انہیں بتایا کہ دو پراسرار کمانڈر باہر سے یہاں آ رہے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں۔

ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع گلگت بلتستان نے حالیہ سالوں میں ملک میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ کا کام کیا ہے۔

یہ لوگ چلاس کے علاقے میں ایک گھر میں ملے جہاں برقع میں ملبوس دو اجنبی شدت پسندوں کا افغانستان کے اہم کمانڈرز کی حیثیت سے تعارف کرایا گیا۔

یہاں مقامی جنگجوؤں کو نانگا پربت آپریشن کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی گئیں۔

معاملے کی تفتیش کرنے والے اہلکار نے بتایا کہ ان لوگوں کو بتایا گیا کہ اس منصوبے کا مقصد ایک غیر ملکی کو اغوا کرنا ہے تاکہ بعد میں اس کا استعمال کرتے ہوئے بدلے میں اہم طالبان کمانڈروں کی رہائی عمل میں لائی جا سکے۔

ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ اصل ہدف چینی نژاد امریکی تھا جس کا مقصد افغانستان میں قید طالبان کی اس کے بدلے رہائی کرانا تھا۔

اس کے بعد ان لوگوں نے مقامی فرقہ ورانہ گروپ سے ایک جنگل میں ملاقات کی اور اس گروپ لیڈر کے خلاف جاتے ہوئے مزید دو شدت پسندوں کو بھرتی کیا تاکہ اپنی تعداد کو دس تک کیا جا سکے۔

یہ لوگ شام میں گلگت اسکاؤٹس کا یونیفارم پہن کر نانگا پربت کے لیے روانہ ہوئے۔

شدت پسند ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ برقع پوش دونوں کمانڈروں نے اپنے برقع اتار دیے، یہ دونوں بھی وہی یونیفارم زیب تن کیے ہوئے تھے لیکن ان کے چہرے ایک کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے۔

لیکن رات میں جیسے ہی حملہ کیا گیا، چَین ہونگلو نے کیمپ سے باہر آ کر مارشل آرٹس کی بدولت ایک شدت پسند کو قابو کر لیا۔

اس موقع پر مجیب نامی ایک شدت پسند نے گھبرا کر فائرنگ کر دی جس سے منصوبے کا مقصد فوت ہو گیا اور نقاب پوش کمانڈرز بھی آپے سے باہر ہو گئے۔

نتیجتاً بقیہ کوہ پیماؤں کو باندھ کر ایک ایک کر کے گولیاں مار دی گئیں۔

ایک مقامی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ سب کچھ مجیب کی وجہ سے ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اصل منصوبہ چینی نژاد امریکی کو اغوا کرنا تھا لیکن چَین ہونگلو کا ردعمل ناصرف ان کی بلکہ بقیہ دس لوگوں کی بھی موت کا سبب بنا۔

حملے کی تفتیشی ٹیم کے دو افسران نے ان باتوں کی تصدیق کی۔

کوہ پیماؤں کے قتل کے بعد حملہ آور پانچ گھنٹے پیدل سفر کرنے کے بعد ایک گاؤں پہنچے اور اپنے یونیفارم دفن کیے، پھر ناشتے کے بعد ایک اور گاؤں کی جانب روانہ ہوئے جہاں سے وہ مختلف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔

چَین ہونگلو کی امریکی شہریت کے باوجود یہ بات تاحال واضح نہیں ہو سکی کہ وہ شدت پسند گروپ کے لیے اتنا اہم ہدف کیوں تھے۔

پچاس سالہ سیاح نے چین کی ٹی سنگ ہوا یونیورسٹی الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور شنگھائی واپسی سے قبل کچھ عرصہ کیلیفورنیا میں کام کیا۔

مذاکرات کاروں کے ذریعے حاصل ہونے والے ایک ویڈیو کلپ میں مجیب نے چین کو مارنے کا اقرار کیا تاہم اس کا کہنا تھا کہ وہ خود کو گرفتاری کے لیے پیش نہیں کریں گا کیونکہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔

مجیب نے ویڈیو میں کہا کہ 'آپ مجھ سے کیا توقع رکھتے تھے کہ میں اس کے ہاتھوں اپنی موت کا انتظار کرتا؟ میں گھبرا گیا اور فائر کردیا'۔

اس واقعے کے چار ماہ بعد حکام کی جانب سے پہلی گرفتار عمل میں لائی گئی۔

اس سلسلے میں کُل 18 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے پانچ ابھی بھی حراست میں موجود ہیں تاہم متعدد شدت پسند ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے صرف ایک شخص حملے میں ملوث تھا جبکہ بقیہ کو جرم قبول کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

مجیب ابھی بھی ضلع کے جنگلات میں چھپا ہوا ہے جہاں وہ وقتاً فوقتاً جہادی نظموں کی آڈیو ریکارڈ کرتا ہے جو گلگت کے بازاروں میں دستیاب ہوتی ہے۔ اس معاملے میں مذاکرات کار کا کردار ادا کرنے والے بشیر قریشی نے کہا کہ اس مقدمے میں ابھی بھی بہت جھول ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کچھ واضح نہیں ہو رہا، انہوں نے چار مقدمات کو یکجا کردیا ہے تاکہ یہ تاثر دیں سکیں کہ تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن حقیقتاً اصل مجرمان تک رسائی بہت دور ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 جون 2025
کارٹون : 23 جون 2025