واک اینڈ ٹاک

01 جولائ 2014
دنیا کے تمام ترقی یافتہ مملک میں قانون سے ذیادہ اہم نا کوئی پارٹی ہے نا کوئی لیڈر۔ ہمارے ہاں تو اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر کے چکر میں لوگ پاگل بھی ہوجاتے ہیں دیوانے بھی اور قانون سے بیگانے بھی۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ مملک میں قانون سے ذیادہ اہم نا کوئی پارٹی ہے نا کوئی لیڈر۔ ہمارے ہاں تو اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر کے چکر میں لوگ پاگل بھی ہوجاتے ہیں دیوانے بھی اور قانون سے بیگانے بھی۔

یار آج پھر لیٹ ہو جائیں گے۔ چار دن ہوئے واک کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ ٹریفک دیکھ رہے ہو۔ کس قدر بے ہنگم ٹریفک ہے۔ یقیناً غلط سمت سے آتی گاڑیوں کی کارستانی ہوگی۔

یار صادق ایک بات تو بتاؤ۔ تم نے کبھی ایسا محسوس کیا ہے کہ سڑک پر ٹریفک جام کی وجہ سے گھنٹوں انتظار کے بعد جب اپنی باری آتی ہے تو ایک سیکنڈ کے اندر اپنی گاڑی ہجوم سے باہر نکل جاتی ہے اور عقل حیران رہ جاتی ہے کہ جب اتنی جلدی گاڑی نکل گئی تو میں پچھلے دو گھنٹوں سے ٹریفک میں پھنسا ہوا کیوں تھا۔

صادق تُم تو ہر دوسرے مہینے کسی غیر ملکی سڑک پر گاڑی دوڑاتے ہو۔ کیا وہاں بھی ایسا ہی نظام ہے؟ کیا امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا میں پاکستان سے ذیادہ ٹریفک نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے تو وہاں کیسے مینیج ہوجاتی ہیں چیزیں؟

خیر ہم ٹریفک کو رو رہے ہیں۔ وہاں سے ہمارا کوئی مقابلہ ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ وہ لوگ تو قانون کے پاسدار لوگ ہیں۔ وہاں عوام سے خواص تک ہر کوئی قانون کی گرفت میں ہوتا ہے۔ یہاں پوچھنے والا کون ہے۔ بلکہ نہیں یار، پوچھنے والے ہیں، سب ہی تو ہیں۔ پولیس سے لے کر عدالتوں تک، ایسا کون سا ڈپارٹمنٹ ہے جو ہمارے ملک میں نا ہو۔

ٹی وی چینلز پہ ہی دیکھ لو۔ کتنے چھاپے مارتے ہیں یہ سرکاری لوگ۔ ہر مہم میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے ہیں۔ یار صادق تم سے کیا چھپا ہو سکتا ہے۔ تم تو خود یہ پروگرامز کرتے آئے ہو۔ تمہیں تو اندر کی ساری کہانیوں کا علم ہوگا۔ یہ تو بتاؤ آخر کیوں ہم آج تک دوسرے ملکوں سے پیچھے ہیں؟

ایسی کیا کمی ہے اس قوم میں جو آج تک غلامی اور محرومی جیسی کنڈیشن ہے ہماری۔ ایسا کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں؟ زراعت دیکھو، ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ دنیا کی ہر بڑی ٹیکنولوجی کمپنی میں پاکستانی موجود ہیں۔ مطلب قابلیت کی کمی نہیں۔ اسپورٹس دیکھو، ٹیلنٹ کی کمی نظر نہیں آتی۔ پھر بھی ہمارا ملک انسانوں کے لئے محفوظ نہیں۔

یہ سب میں تو نہیں کہہ رہا۔۔۔ دنیا کا ہر بڑا ملک اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے سے گریز کرنے کا کہتا ہے۔ اور باتیں کیوں نا ہوں۔ دیکھو تو کتنے لوگ مرتے ہیں یہاں۔ خون بہتا رہتا ہے پھر بھی کچھ بہتری نہیں آتی۔ ہمیں ہوش بھی تب آتا ہے جب پانی سر سے اوپر نکل جاتا ہے۔

ہم ہیں بھی تو کنفیوز لوگ۔ کبھی کہتے ہیں مذاکرات کرنے ہیں۔ کبھی آپریشن شروع کردیتے ہیں۔ کبھی وقت سے آگے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی اتنی دیر کردیتے ہیں کہ دنیا مزاق اُڑاتی ہے۔

صادق سنگاپور ہی کو دیکھو نا یار۔ ہمارے ایک کراچی کے اندر تین چار سنگاپور آجائیں۔ اتنا ننھا سا ملک ہے۔ نا اپنا اناج ہے اُن کے پاس نا ہی ہمارے ملک جتنی زمین۔ پھر بھی وہ ہم سے ہزار گنا آگے ہے۔ تمہیں کوئی وجہ سمجھ آئے نا آئے لیکن مجھے تو صرف ایک ہی چیز سمجھ آتی ہے۔ قانون کی بالادستی۔

دنیا کے تمام ترقی یافتہ مملک میں قانون سے ذیادہ اہم نا کوئی پارٹی ہے نا کوئی لیڈر۔ ہمارے ہاں تو اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر کے چکر میں لوگ پاگل بھی ہوجاتے ہیں دیوانے بھی اور قانون سے بیگانے بھی۔

لیکن صادق آج بھی ہم واک کرنے نہیں جا سکے یار۔ اس لاقانونیت نے سکون کی ایک اور سرگرمی کو تالا لگا دیا آج۔ کاش ہم زبانی کلامی احترام سے بڑھ کر واقعی قانون کا احترام کرنے لگیں۔ تو نا ہماری واک خراب ہو، نا ہی ملک کا امن و امان۔۔۔۔


لکھاری ڈان نیوز ٹی وی کے ایگزیکیٹو پروڈیوسر اور پروگرم اینکر ہیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Nadir Jul 01, 2014 05:27pm
Janaab poori dunya main log qanoon kay paasdaar nahi hain, balkay qanoon sakht hai danday Kay zor per chaltay hain sub
kamran Jul 02, 2014 04:47am
j0 l0g kisi qan00n ko nahi man sakte wo Allah ka qan00n kese manain ge?