کراچی: ٹرانسپورٹ کے بیشتر منصوبے تاحال کھٹائی میں

01 جولائ 2014
بسوں کی چھتوں پر موجود سی این جی سلنڈرز قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں—۔فوٹو وائٹ اسٹار
بسوں کی چھتوں پر موجود سی این جی سلنڈرز قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں—۔فوٹو وائٹ اسٹار

کراچی : وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی جانب سے جون کے اختتام تک کراچی کی سڑکوں پر 36 سی این جی بسیں لانے کا اعلان بھی ماضی میں کیے گئے اعلانات کی طرح خام خیالی ہی ثابت ہوا۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ نے مذکورہ پلان پر عمل درآمد کے لیے چیف سیکرٹری سجاد سلیم چیمہ کی سربراہی میں بیوروکریٹس پر مشتمل ایک مضبوط کمیٹی تشکیل دی تھی۔

تاہم کمیٹی کے چیئرمین اور دیگر اراکین سمیت کمشنرشعیب صدیقی اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ایڈ منسٹریٹر رؤف اختر فاروقی فوری اور مناسب حمکت عملی کے تحت اس منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے میں ناکام رہے۔

قائم علی شاہ کے مطابق حکومت سی این جی بسوں کو ضروری مرمت اور ان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے بعد واپس سڑکوں پر لانے کے منصوبے پر چار کروڑ روپے خرچ کر چکی ہے۔

یہ بسیں سرجانی ٹاؤن میں کے ایم سی بس ٹرمینل پر کھڑی ہیں، جبکہ ان کا روٹ ٹاور سے قائدآباد براستہ شاہراہِ فیصل مقرر کیا گیا تھا۔

محکمہ ٹرانسپورٹ کے ذرائع کے مطابق ڈپارٹمنٹ اس منصوبے کے سلسلے میں پہلے ہی تمام سہولیات فراہم کرچکا ہے، جن میں قائد آباد ٹرمینل، بسوں کا روٹ اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سےبسوں کو بلا تعطل سی این جی کی فراہمی شامل ہے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ چونکہ یہ بسیں نجی پارٹیوں کی جانب سے چلائی جانی تھیں اور بے شمار پارٹیوں نے اس منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی تھی، لہذا کمیٹی نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ اس پروجیکٹ سے کس کو نوازا جائے گا۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی غیر موجودگی میں عوام کو ٹوٹی پھوٹی منی بسوں اور بسوں میں سفر کرنا پڑتا ہے، جبکہ صبح اور شام کے اوقات میں اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے بسوں کی چھتوں پر سفر کرنا بھی ایک معمول ہے۔

کراچی میں ٹرانسپورٹ کا واحد متبادل اور کچھ حد تک آرام دہ ذریعہ چنگ چی اور آٹو رکشہ ہیں، لیکن وہ بھی کم فاصلے کے سفر کے لیے موزوں ہیں۔ تاہم بہت سے افراد بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے سے بچنے کے لیے ان میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ نے 12جون کو ہونے والی ایک میٹنگ میں انٹرا سٹی بس پروجیکٹ، سی این جی بسوں کے آغاز اور اگلے دو ماہ میں 35 بسوں کو شہر کی سڑکوں پر لانے کے معاملے پر تفصیلی غور کیا تھا۔

اس سے قبل انھوں نے اپنی بجٹ تقریر میں بھی کراچی کے عوام کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ حکومت ایک تیز رفتار بس ٹرانسپورٹ منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ گرین لائن کے نام سے جانا جانے والا یہ منصوبہ سرجانی ٹاؤن سے صدر تک کے لیے ہوگا۔

سرکاری اور نجی اشتراک سے شروع کیے جانے والے گرین لائن منصوبے کی تکمیل سال 15-2014 کے دوران ہونی تھی اور اس پر تقریباً تین بلین روپے لاگت آنی تھی، تاہم اس منصوبے کی اب تک منظوری نہیں دی گئی۔ حکومت نے رواں مالیاتی سال میں اس منصوبے کے لیے پانچ کروڑ بانوے لاکھ سے زائد کے فنڈ کی منظوری دی ہے اور اسے جون 2017 تک مکمل کیا جائے گا۔

ٹرانسپورٹ کا ایک اور منصوبہ شہید بینظیر بھٹو ڈیزل بس سروس ہے، جس کے ذریعے سندھ کے بڑے شہروں کو کراچی سے ملایا جائے گا ۔ چونتیس کروڑ روپے کے اس منصوبے کے تحت سو بسیں چلائی جائیں گی۔

اس منصوبہ کی منظوری 27مارچ 2012کو دی گئی تھی اور اسے جون 2016 تک مکمل ہونا تھا۔

ذرائع کے مطابق حکومت ماڈل کالونی اور مزارِ قائد کے درمیان براستہ یونیورسٹی روڈ ایک اور بس سروس شروع کرنے کے حوالے سے فنڈز کی فراہمی کے سلسلے میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے بھی مذاکرات کر رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

me shocked Jul 02, 2014 05:16am
All these ministers and members of assemblies and politicians and bankers and middle class and upper class do not use the public transportation - some of these guys have government transportation with guards and others have drivers and so forth. Now you tell me why would they worry about building a proper transportation infrastructure for the city or the province? Sind is blessed with the most corrupt and disloyal parties governing the province with empty slogans. Typically in a democracy politician and the government is afraid of people but in Sind people are afraid of the Government the reason a city like Karachi has poor infrastructures – and to solve the transportation nightmare there is need for a Underground or a subway system and a highway circling the city.