'خارجہ سیکریٹری پاک –انڈیا مذاکرات کی قسمت کا فیصلہ کریں گے'
اسلام آباد: پاکستان اور انڈیا کے خارجہ سیکریٹریوں کی مستقبل قریب میں ملاقات دونوں ایٹمی پڑوسی ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کی جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کا لب و لباب یہی تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان حالیہ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے نشان دہی کی کہ دونوں رہنماؤں نے اپنے سیکریٹری خارجہ کو ملاقات کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے طریواں پر غور کیا جا سکے۔
تسنیم اسلم نے یہ بیان دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر، سر کریک اور سیاچن سمیت تمام حل طلب مسائل پر پیش رفت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں دیا۔
انہوں نے کہا ' یہ ملاقات بہت جلد متوقع ہے۔ میں اس کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دے سکتی۔اسی ملاقات سے پیش رفت کی سمت کا عندیہ مل جائے گا، لہذا اس موقع پر ہمیں کوئی فیصلہ نہیں سنانا چاہیئے '۔
جب ان سے مودی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے عسکری مبصر گروپ کے زیر استعمال عمارت کو حاصل کرنے کے فیصلہ پر تبصرہ کو کہا گیا تو انہوں نے کہا' گروپ کو عمارت خالی کرنے کو کہنے سے انہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91 کے تحت مینڈیٹ ختم نہیں ہو جاتا'۔
'جب تک کشمیر کا معاملہ حل نہیں ہوتا، یو این ایس سی مینڈیٹ برقرار رہے گا۔ یہ اقدامات غیر ضروری اور مسئلے کی قانونی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہوتے'۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کسی صورت میں کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کو تسلیم نہیں کرے گا۔
چین میں روزوں پر پابندی تسنیم اسلم نے کہا کہ چین میں روزہ رکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور اس حوالے سے میڈیا کے ایک حصے میں شائع ہونے والی خبریں بے بنیاد اور محض افواہیں ہیں ۔
چینی حکومت کی جانب سے رمضان میں مسلمانوں کےلئے روزے رکھنے پر پابندی سے متعلق اطلاعات بارے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ رپورٹس محض افواہیں اور حقیقتاً غلط ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ چینی حکام نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ چین میں روزہ رکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور وہ مذہبی آزادی کا احترام کرتے ہیں ۔
آئی ڈی پیز کے لیے عالمی امداد دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی امداد کے لئے بین الاقوامی برادری سے کوئی اپیل نہیں کی۔
'پاکستان نقل مکانی کرنے والے ان افراد کی ضروریات اپنے وسائل سے پوری کرے گا اور اس سلسلے میں عالمی برادری سے مالی امداد کی کوئی اپیل نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فوجی پریشن پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور نقل مکانی کرنے والے افراد کی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
افغانستان میں نقل مکانی کر کے جانے والے افراد کے حوالے سے افغان حکومت سے تصدیق سے متعلق ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو اس سلسلے میں افغان حکومت سے کسی قسم کی کوئی تصدیق نہیں موصول ہوئی۔
تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ کچھ نقل مکانی کرنے والے افراد اپنے رشتہ داروں کے پاس رہائش اختیار کرنے کے لئے افغانستان گئے ہیں ۔
افغان الیکشن افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی کے عمل میں پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ یہ افغان عوام کا معاملہ ہے اور انہوں نے خود ہی یہ کام کرنا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی افغانستان میں جمہوری اور پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے لئے مکمل حمایت کا اعلان کر چکا ہے اور اس نے پرامن انتخابات کے انعقاد کے لئے ہر ممکن کوششیں کی ہیں۔