برطانیہ میں اٹھارہ گھنٹے کا روزہ

اپ ڈیٹ 12 جولائ 2014
خواتین ہیئرو کی مرکزی مسجد میں افطار کررہی ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ گارڈین
خواتین ہیئرو کی مرکزی مسجد میں افطار کررہی ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ گارڈین

ہیئرو کی مرکزی مسجد میں خواتین کے لیے مخصوص نماز کے کمرے میں فاطمہ نے بتایا ’’پچھلا سال واقعی بہت مصروف تھا۔ یہ سال اس سے کچھ کم مصروف ہے۔ میرا خیال ہے کہ ورلڈ کپ اس کی وجہ ہے۔‘‘

اس مسجد کی عمارت کافی وسیع ہے، نو برس سے اس کا تعمیراتی کام جاری ہے۔

جمعرات کی شام کے پونے نو بج رہے ہیں اور اس وقت لوگوں کا موڈ لاابالی طرز کا ہے۔

بشریٰ جو یہاں اپنی پانچ مہینے کی بیٹی زہرہ کے ہمراہ آئی ہوئی ہیں، کہتی ہیں ’’اس بات کی وضاحت کرنا مشکل ہے کہ کھائے پیے بغیر ہر ایک کافی توانائی محسوس کررہا ہے۔‘‘

یہاں افطار کا وقت نو بجکر تیئس منٹ ہے۔ لوگ نو بجے سے اکھٹا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ یہاں لوگوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔

بشری نے کہا ’’جب بھی آپ روزہ افطار کریں، آپ ایک کھجور اور پانی کے ایک گلاس سے افطار کریں۔ اس کے بعد آپ کو بھوک بالکل محسوس نہیں ہوگی۔‘‘

اس مسجد کے آپریشن مینیجر ندیم نے برطانوی روزنامے گارڈین کی نمائندہ کو بتایا ’’انسانی جسم اس کے لیے بہت زیادہ موزوں ہے۔ بہت سے لوگ کئی کئی دن بغیر خوراک کے رہ جاتے ہیں۔یہ تو چند گھنٹے ہیں۔‘‘

تاہم انہوں نے دانستہ طور پر واضح نہیں کیا کہ صبح تین بجے سے شام نو بجے تک درحقیقت 18 گھنٹے ہوتے ہیں۔

بشریٰ بولیں کہ یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ آپ کا عقیدہ کیا ہے، آپ روزہ رکھ سکتے ہیں۔

فاطمہ نے کہا کہ آپ ان اوقات میں روزہ رکھیں، ظاہر ہے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور موجود ہے۔

شیخ رحیم جنہوں نے بیس برس پہلے اسلام قبول کیا تھا، اب وہ اس مسجد کا تعلیمی پروگرام چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ درحقیقت روحانی تربیت کا مہینہ ہے۔

دوسری جانب برطانیہ کے ایک بڑے اسلامک گروپ نے کہا ہے کہ ایسے مسلمان جو شدید بیمار ہیں، اگر وہ رمضان کے مہینے میں روزے رکھ رہے ہیں، تو وہ اپنی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

مسلم کونسل آف برٹین (ایم سی بی) نے ایک کتابچہ جاری کیا ہے، جس میں مشورہ دیا گیا ہے کہ موجودہ گرم موسم میں کس طرح محفوظ طریقے سے روزہ رکھا جائے۔

کونسل کے امام ابراہیم موگرہ کا کہنا ہے کہ ’’مجھے ایسے لوگوں کے بارے میں سخت تشویش ہے، جو اپنی صحت کو لاحق خطرات کے باوجود روزہ رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ جو روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہیں، وہ اس کے بدلے میں فلاحی اداروں کو رقم عطیہ کردیں یا غریبوں کو کھانا کھلادیں۔

اس کے علاوہ برطانیہ میں مقیم لاکھوں مسلمانوں کے لیے سپر اسٹورز پر رمضان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں نمایاں کمی کردی گئی ہے۔

ان اشیاء میں مختلف اقسام کی کھجوریں، دال چاول اور یہاں تک کہ پاکستان فون کرنے کے لیے فروخت ہونے والے کالنگ کارڈز کی قیمتیں بھی کم ہوگئی ہیں۔

مثال کے طور پر شربت کی ایک بوتل جو رمضان سے پہلے تین پونڈ کی ملتی تھی، رمضان میں ڈھائی پونڈ کی فروخت کی جارہی ہے۔

بعض سپراسٹوروں میں بہت سی اشیاء پر دس فیصد سے چالیس فیصد تک رعایت دی جارہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں