کول پاور پلانٹ کی تعمیر ماحولیاتی تباہی کی بھاری قیمت پر

21 جولائ 2014
حکومت پنجاب کی جانب سے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے خریدی گئی زمین سے درخت کاٹے جارہے ہیں۔ —. فوٹو ڈان
حکومت پنجاب کی جانب سے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے خریدی گئی زمین سے درخت کاٹے جارہے ہیں۔ —. فوٹو ڈان

ساہیوال: ساہیوال کا کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا (کول پاور پلانٹ) پلانٹ قادرآباد کے نزدیک چک نمبر 76/6-آر میں تعمیر کیا جارہا ہے، اور توقع ہے کہ اس سے 1320 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، جو بجلی کے بحران سے نمٹنے میں مدد دے گی۔ تاہم اس پلانٹ سے ماحول کو غیرمعمولی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس پلانٹ کے قیام سے سب سے پہلی مصیبت 1002 ایکڑز کی سرسبز زرعی زمین پر نازل ہوگی، جس کو اس پلانٹ کے قیام کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس پاور پلانٹ کی سائٹ پر تعمیراتی کام کی شروعات سے قبل 9302 کی تعداد میں پھلوں اور جنگلی درختوں کو کاٹنا ہوگا، آبپاشی کے لیے استعمال کیے جانے والے چھتیس ٹیوب ویلز اور تین واٹر چینلز ختم ہوجائیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ گندم، مکئی اور کپاس کی کھڑی فصلوں کے ساتھ 783 ایکڑز کی زمین کو ہموار کردیا جائے گا۔

اتنی بڑی تعداد میں درختوں کی کٹائی کے نتیجے میں لاتعداد پرندے اپنے مسکن سے محروم ہوجائیں گے۔

لوئر باری دو آب کینال کے دائیں کنارے پر موجود یہ زمین مختلف نجی مالکان سے زمین کی تحصیل کے ایک 1894ء کے تحت توانائی کے صوبائی محکمے کی طرف سے حاصل کی جارہی ہے۔

اس زمین کی قیمت ڈسٹرکٹ کلکٹر کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ پرائس اسسمنٹ کمیٹی (ڈی پی اے سی) نے 372 مالکان کی رضامندی سے مقرر کی تھی۔ اس کے علاوہ زمین کی اس قیمت کے ساتھ مالکان اور ڈی پی اے سی کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ محکمہ زمین کو اپنے قبضے میں لینے سے پہلے کسانوں کو ان کی کھڑی فصل، جنگل یا جنگلی درخت، پھلوں کے درخت، نالوں، ٹیوب ویلوں کے لیے بھی ادائیگی کرے گا۔

ڈاکٹر خالد جاویدکل 2001 ایکڑ کی زمین میں سے نو ایکڑ کے مالک ہیں، جسے یہ محکمہ 18.6 ملین روپے کے بدلے میں حاصل کررہا ہے۔

ان نو ایکڑ کی زمین کی نگرانی ڈاکٹر خالد کے بھائی نوید کرتے ہیں، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ اس زمین پر آم کے 150 درخت، پانچ جامن کے، 49 سفیدے کے اور 550 امرود کے پودوں کو کاٹ دیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا ’’میں نے اوکاڑہ میں مقیم ایک ٹھیکے دار کو کٹائی کا ٹھیکہ دیا ہے۔‘‘

ڈان کے رپورٹر نے دیکھا کہ ڈاکٹر خالد کی زمین پر سرسبز درختوں کو بیس مزدور بے رحمی سے کاٹ کر نیچے گرا رہے تھے۔

ٹھیکے دار کے منشی جو کل 754 درختوں کی کٹائی میں مصروف مزدوروں کی نگرانی کررہے تھے، ان کو امید تھی کہ ان کے مزدور اس پوری سرسبز چھتری کو دو ہفتے کے اندر اندر صاف کردیں گے۔

اکتیس جنوری 2014ء کو شایع ہونے والی ڈی پی اے سی کی سفارشی رپورٹ میں دیے گئے تخمینے کے مطابق ہر زمین مالک کو ایک پھلدار درخت کے چار ہزار چوّن روپے، فی جنگلی درخت کے ایک ہزار ایک سو اٹھارہ روپے، فی ٹیوب ویل ایک لاکھ اکیاسی ہزار تین سو پچاس روپے، فی ایکڑ کھڑی فصل کے ستاون ہزار چار سو بانوے روپے اور زمین کی آبپاشی کے لیے بنائے گئے پانی کے فی چینلز کے پچھتر ہزار چار سو اننچاس روپے ادا کیے جائیں گے۔

ڈسٹرکٹ کلکٹر ڈاکٹر ساجد محمود کا کہنا ہے کہ یہ رقم حاصل کرلی گئی تھی، اور ضلعی حکومت اور 372 نجی مالکان کے درمیان اس بات پر اتفاق تھا۔

ڈپٹی کلکٹر نے کہا ’’یہ اصولی فیصلہ کیا گیا تھا کہ ضلعی حکومت معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے زمین کے ہر ٹکرےکی حقیقی قیمت کے ساتھ درختوں، فصلوں، ٹیوب ویلوں اور پانی کے چینلز کے لیے اضافی رقم ادا کرے گی۔‘‘

یہ ان لوگوں کے لیے تو ایک اچھا سودا ہوسکتا ہے، جو اس محکمے کو اپنی زمینیں فروخت کررہے ہیں، لیکن یقیناً یہ اس علاقے کی ماحولیات کے لیے اچھا سودا نہیں ہوگا۔

اسلام آباد میں مقیم ماحولیات پر عوامی پالیسی کے ماہر جواد چشتی کہتے ہیں کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا یہ پلانٹ سبز تحفظ کو نقصان پہنچائے گا، جو اس علاقے میں موجود درختوں، جھاڑیوں، فصلوں اور پھلدار پودوں سے قدرتی طور پر میسر ہے۔ اس کے علاوہ پرندے اپنے محفوظ مسکن سے بھی محروم ہوجائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں