تھوڑا سا احترام

25 جولائ 2014
آپ ایک مایوس، خوفزدہ بیوروکریسی سے کیا توقع کرسکتے ہیں جنہیں اپنی سمت کا علم نہ ہو؟
آپ ایک مایوس، خوفزدہ بیوروکریسی سے کیا توقع کرسکتے ہیں جنہیں اپنی سمت کا علم نہ ہو؟

"کہتے ہیں بیوروکریسی ایک ایسا مرکب ہے جو ترقی کے پہیوں کو تیز حرکت کرنے میں مدد دیتا ہے" جبکہ اسکے مخالف کا کہنا ہے "بیوروکریسی پہلا قدم اٹھانے والے پر وار کرتی ہے"-

پہلے قول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ اس ملک کی بیوروکریسی کو کس نظر سے دیکھتا تھا، جبکہ دوسرے قول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بعد میں قائم ہونیوالی حکومتیں اس کے بارے میں کیا سوچتی تھیں-جب سے برطانیہ یہاں سے رخصت ہوا ہے، ہم بیوروکریسی کو پاکستان کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ اسے حکمرانوں کا اطاعت گزار بنایا جائے، خواہ حکمراں فوجی ہوں یا سیول-

اس جملے، ' نوآبادیاتی ماضی کی باقیات' کو ہم نے اپنی مرضی کے مطابق بیوروکریسی کی ' اصلاح' کے لئے استعمال کیا ہے تاکہ اسے اور زیادہ اطاعت گزار بنائیں جبکہ ہم نے 'برطانوی راج کے دیگر ورثہ' کو مثلاً، پاکستان آرمی کے نظام اور روایات کو نظرانداز کردیا گیا- کریمنل لاز اور سیول لاز بھی ابھی تک ویسے ہی ہیں جیسا کہ برطانوی حکمراں انھیں چھوڑ گئے تھے-

بیوروکریسی کی توڑ پھوڑ کی ابتدا ایوب خان سے ہوئی جس نے 303 سینیئر افسروں کی چھٹی کردی- اسکے بعد یحییٰ خان نے 1300 افسروں کو برطرف کردیا، ذوالفقار علی بھٹو نے بعض آئینی ضمانتیں واپس لے لیں، 1972 میں بہت سی انتظامی اصلاحات کیں اور اسکے بعد بیوروکریسی کی 'اصلاحات' کے لئے بہت سے کمیشن قائم کئے-

آخری وار پرویز مشرف کی ڈیولیوشن کی اصلاحات تھیں، جس نے ضلعی انتظامیہ کی شناخت، جس کا تعلق ملک کی 70 فی صد آبادی سے تھا، ختم کردی-اب جبکہ بارہ سال گزر چکے ہیں عوام کو آج بھی معلوم نہیں کہ اختیارات کی تقسیم(Devolution ) کے نام پر پولیس اور سیول انتظامیہ میں جو عہدے کثیر تعداد میں قائم کئے گئے تھے ان کا مقصد کیا تھا-

گزشتہ 67 سال میں جو 'اصلاحات' کی گئیں، بیوروکریسی اپنی کارکردگی کے لحاظ سے اور بھی پست ہوتی گئی-حکمرانوں نے اس کمی کو چھپانے کے لئے اخبارات اور ٹی-وی کے اشتہارات کا سہارا لینا شروع کیا تاکہ یہ ڈھکوسلا کیا جائے کہ نظم و نسق بالکل ٹھیک چل رہا ہے-کارکردگی جتنی گھٹتی جاتی ہے اشتہارات اتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں-

بیوروکریسی کو برا بھلا کہنا آسان ہے؟ لیکن اسکا متبادل کیا ہے؟ہوتا یہ ہے کہ سیاسی وفاداریوں پر مبنی نامناسب سیول سرونٹس کی پوسٹنگ کیجاتی ہے لیکن جب کارکردگی گھٹیا ہوتی ہے تو حکمرانوں کو نہیں بلکہ بیوروکریسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے-دو مہینہ بعد ہی آئی جی سندھ کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا، جسکی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انھوں نے 8 ارب روپے کے ایک کنٹریکٹ پر دستخط نہیں کئے تھے- اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں-

بعض اہم اداروں میں درجنوں اسامیوں کے لئے ایسے لائق امیدوار دستیاب نہیں ہیں جو ساتھ ہی وفادار بھی ہوں-خبروں کے مطابق حکمرانوں کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی کا معیار سابق کے مقابلے میں جبکہ وہ اقتدار میں تھے، واقعی گھٹ گیا ہے اور وہ سمجھ نہیں سکے ہیں کہ اسکی وجہ کیا ہے-

ریاست کی عملداری انتہائی پست ہے کیونکہ بیوروکریسی مایوسی کا شکار اور خوفزدہ ہے اور اسے اپنی سمت کا احساس نہیں رہا-

بیوروکریسی اس لئے مایوس ہے کیونکہ ان کی پوسٹنگ اور ترقی کا انحصار میرٹ پر نہیں ہے- اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کی جان پہچان کس سیاسی شخصیت سے ہے، آپ کس کو اپنی' خدمات' پیش کرتے ہیں جو آپ کو ملازمت دلوائے یا آپ کی ترقی میں مدد دے-

سیول سرونٹس اس لئے خوفزدہ ہیں کیونکہ عدالتیں انھیں باقاعدگی سے سمن بھیج کر طلب کرتی ہیں-عدالتوں کی طرف سے کیجانے والی تنقیدوں کو ٹی-وی کے خاص شو میں دکھایا جاتا ہے- چنانچہ، مقدمہ یا فرد جرم کے بغیر وہ خود کو 'مجرم' بنتا دیکھتے ہیں-

اسکی کلاسک مثال کامران لاشاری کی ہے جو انتہائی معزز سیول سرونٹ تھے، انھوں نے اسلام آباد کے ایک پارک میں دارالحکومت کے ماسٹر پلان کو نظرانداز کرتے ہوئے میکڈونلڈ کو اپنی شاخ کھولنے کی اجازت دی تھی- اگرچہ کہ اس کا بزنس آج بھی زور و شور سے چل رہا ہے لیکن ان کا شاندار کیریئر ختم ہوگیا- آجکل دارالحکومت میں جو کھدائیاں ہورہی ہیں، وہ ماسٹر پلان کے خلاف ہیں لیکن عدالت کی نظر ان پر نہیں پڑرہی ہے-

اس معاملے میں سسٹم نے اس بات کو پیش نظر رکھا ہے کہ نوجوان سول سرونٹس کسی کو اپنا رول ماڈل نہ بنائیں- سیول سرونٹس کے سامنے مثال نہیں ہے کیونکہ خود ان کا اندرونی کمانڈ اور کنٹرول کا نظام تہس نہس ہوچکا ہے- اسٹبلیشمنٹ سکریٹری، جو بیوروکریسی کا 'مائی باپ' ہوتا تھا اب اسکی حیثیت پوسٹ آفس کی سی ہے- تمام فیصلے اوپر اوپر ہوتے ہیں یا پھر جوڑ توڑ کے ذریعے (اگر آپ کو پوسٹنگ چاہیئے تو کسی وزیر کے جانب سے درخواست لانی ہوگی- صوبائی سطح پر چیف سکریٹری باس ہوا کرتا تھا- مجھے ایک کیس کا علم ہے جسے اپنی پسند کا اسٹاف افسر نہ مل سکا تھا-

تو پھر آپ ایک مایوس، خوفزدہ بیوروکریسی سے کیا توقع کرسکتے ہیں جنھیں اپنی سمت کا علم نہ ہو؟ اور حقیقت میں یہی کچھ ہورہا ہے-

اصلاحات کا ایک اور چکر اس مسئلہ کا حل نہیں ہے- ضرورت اس بات کی ہے کہ سیول سرونٹس کا مرتبہ اور ان کا احترام بحال کیا جائے، نہ کہ ان کی تحقیر کرکے خوشیاں منائی جائیں- ضروری ہے کہ تمام شعبوں اور وزارتوں کے سربراہوں کے اختیارات اور ان کے رول کو، جس میں اسٹبلشمنٹ کے سکریٹری اور چیف سکریٹری بھی شامل ہوں، بحال کیا جائے-

جب ایک مرتبہ سول سرونٹس کا اعتماد اور ان کی عزت بحال ہوجائیگی اور تمام معاملات میرٹ کی بنیاد پر طے کئے جائنگے تو بیوروکریسی بھی اپنی کارکردگی دکھائیگی اور جسکی کارکردگی نظر نہ آئے اس کی جوابدہی ہونی چاہیئے جو شفافیت پر مبنی ہو-

اگر ایسا نہ ہوا تو، بیوروکریسی ملک اور خود حکومت کو لے ڈوبے گی-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (1) بند ہیں

راشد نذیر علی Jul 31, 2014 11:09am
کیا بیکار لقطہ نظر ہے۔ کرپشن کرنے میں تو افسر شاہی شیر ہے اور صحیح کام کرپے ہوۓ گیدڑ