نائنٹیز کا پاکستان -- 2

سیاسی مخالفین کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کا رواج بھی اسی دور میں شروع ہوا -- رائٹرز فوٹو
سیاسی مخالفین کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کا رواج بھی اسی دور میں شروع ہوا -- رائٹرز فوٹو

یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لیے کلک کریں


بینظیر صاحبہ کو پہلی حکومت کے دوران ’مقتدر حلقوں‘ کی جانب سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ دفاع اور خارجی معاملات، خصوصی طور پر پاکستان کے جوہری پروگرام میں مداخلت نہ کی جائے، اور انہی شرائط پر اقتدار منتقل کیا گیا۔

جب حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو ان کی حکومت کو دو ہی سال میں صدر کے ذریعے فارغ کروا دیا گیا۔ بینظیر صاحبہ نے اپنے دور حکومت میں چند اعلی فوجی افسروں کی تقرری اور معطلی کروانی چاہی لیکن وہ اس کوشش میں ناکام ہوئیں۔

اس دور حکومت میں پنجاب اور بلوچستان میں اپوزیشن کی جماعتیں برسر اقتدار تھیں اور ان حکومتوں کو برطرف کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔

پنجاب میں اپنی وزارت خطرے میں دیکھ کر نواز شریف صاحب اسمبلی کے آزا د نمائندوں اور اپنی جماعت کے چند افراد کو چھانگا مانگا لے گئے تھے اور ان سے وفاداری کا حلف لیا گیا تھا۔

وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بینظیر صاحبہ نے نواز شریف کو ’پنجاب کا جی ایم سید‘ قرار دیا۔ انہوں نے پنجاب کی صوبائی حکومت کو de-stabilize کرنے کیلئے اپنی جماعت کے سیکرٹری جنرل، ٹکا خان کو صوبائی گورنر کا عہدہ عطا کیا۔

1989ء میں اندرون سندھ کے حالات بہت کشیدہ ہو چکے تھے اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال کی ایک وجہ جی ایم سید کی ’سندھو دیش‘ تحریک تھی۔

جی ایم سید کے پیرو کاروں نے سندھ کے مختلف مقامات پر ہنگامہ برپا کیا اور ایک موقعے پر سکھر ائیر پورٹ پر قبضہ کر لیا۔ اسی دوران ممتاز بھٹو کی سربراہی میں سرائیکی صوبے کی تحریک بھی شروع ہوئی۔

امن وامان پر قابو پانے کے لیے فوج کی مداخلت ضروری ہو گئی اور وزیراعظم کے احکامات پر فوج نے صوبے میں آپریشن شروع کیا۔

اسمبلی میں واضح برتری نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی حکومت مسلسل خطروں کا شکار رہی۔ اسمبلی کی تشکیل کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وزیر اعظم صاحبہ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کا شوشہ اٹھا۔

مرکز میں حکمران جماعت کی حلیف عوامی نیشنل پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی سے قطع تعلقی اختیار کر لی۔ قرارداد عدم اعتماد سے قبل اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی کو محلاتی سازشوں سے دور کرنے کیلئے محترمہ نے پاک فضائیہ کے طیاروں میں اپنے ایک سو(100) ارکان اسمبلی کو منگورہ، سوات، بھیج دیا۔

قرارداد عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکی اور حکومت کو اس معرکے میں فتح حاصل ہوئی۔

1990ء میں صوبہ سندھ میں حالات نازک موڑ پر پہنچ چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کے طلباء ونگ اور مہاجر پارٹی کے کارکنان کے درمیان اغوا کنندگان کے تبادلے چل رہے تھے۔

بینظیر صاحبہ نے سنہ 1988ء میں حکومت ملتے ہی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سینکڑوں سیاسی ارکان کو رہا کر دیا تھا۔

ان اسیران میں سب بے قصور نہیں تھے اور ان کی رہائی کے باعث امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی۔ وزیر اعظم نے فوج کو طلب کرنے سے اجتناب کیا کیونکہ وہ اپنے بنیادی حلقے میں فوج کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔

مئی 1990ء میں سندھ حکومت نے حیدرآباد میں کرفیو نافذ کر دیا۔ حیدر آباد قلعے سے خواتین اور مرد قرآن اٹھائے نکل پڑے۔ پولیس نے ان پر گولی چلا دی اور فسادات کے نتیجے میں ستر (70) افراد مارے گئے۔

پولیس کے مطابق ان افراد کے عقب میں بندوقیں والے لوگ موجود تھے جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے مطابق نہتی عورتوں پر گولی چلائی گئی۔

اس واقعے کے رد عمل میں کراچی میں بھی فساد پھیلا اور دو سو سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی موقع پر صدر نے فوج کو طلب کیا۔

حکومتی سطح پر کرپشن بھی بہت بڑھ گئی اور کروڑوں روپے کے قرضے حکومتی وزرا اور انکے رشتہ داروں کو نوازے گئے۔ بینظیر صاحبہ نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کو بے محکمہ وزیر جبکہ اپنے سسر حاکم علی زرداری کو اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔

سیاسی مخالفین کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کا رواج بھی اسی دور میں شروع ہوا۔ ایک موقع پر شریف خاندان کی اتفاق فاونڈری کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان ریلوے کو حکم دیا گیا کہ سکریپ کراچی سے لاہور نہ پہنچنے دیا جائے۔

اس نقصان کے باعث اتفاق فاؤنڈری کو تین ہزار کے قریب ملازم فارغ کرنے پڑے۔ صدر غلام اسحاق خان نے حکومت بننے کے بیس ماہ بعد اس کو کرپشن، اقربا پروری، نااہلی، عدلیہ اور سینیٹ توہین کے ضمن میں آٹھویں ترمیم کے تحت برطرف کر دیا۔

جوہری پروگرام کے متعلق سخت بیانات دینے پر حساس ادارے کے سربراہ حمید گل نے بینظیر کے خاتمے کے لیے 1989 ء میں ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے دفتر واقع مانسہرہ میں نواز شریف اور اسامہ بن لادن نامی عرب کی ملاقات ہوئی۔ لیکن یہ منصوبہ پایہء تکمیل تک نہ پہنچ پایا اور اس سے پہلے ہی حکومت کی چھٹی کرا دی گئی۔

صدر مملکت کی جانب سے بینظیر صاحبہ کے خلاف کرپشن کے چھ ریفرنس دائر کئے گئے (صدر کو یہ اختیار ضیاء دور کی ابتداء میں دیا گیا تھا)۔

پہلا ریفرنس خفیہ فنڈ میں خورد برد سے متعلق تھا۔ اس ریفرنس میں دی گئی معلومات کے مطابق بینظیر صاحبہ نے دو کروڑ روپے اپنے آپ کو دیے، تین کروڑ نصیر اللہ بابر، ایک کروڑ ملک وارث، ڈیڑھ کروڑ آفتاب شیر پاؤ، ایک کروڑ حنیف خان، چالیس لاکھ محب اللہ شاہ اور چھبیس لاکھ ناہید خان کو دیے گئے۔

دوسرے ریفرنس کے مطابق اسلام آباد میں 287 ایکڑ زمین ایک جعلی کمپنی کو ہوٹل بنانے کی مد میں دی گئی۔

تیسرا ریفرنس مرکزی حکومت کے خلاف پاک فضائیہ کے جہاز استعمال کرنے سے متعلق تھا، ان جہازوں پر صوبائی اسمبلی کے ارکان سوار تھے جن کو قراراداد عدم اعتماد کے لیے خریدا گیا تھا۔

چوتھا ریفرنس ایل پی جی (LPG) گیس کے لائسنس اپنے قریبی دوستوں اور رشتے داروں کو دینے سے متعلق تھا۔

پانچواں ریفرنس خام روئی کے معاہدے کے بارے میں تھا جس کی بدولت سرکاری خزانے کو دس کروڑ روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا.

چھٹا ریفرنس دو سو کروڑ ڈالر کے قرضوں کی خورد برد کے بارے میں تھا جو اصل میں KESC کو مشاورت دینے کی مد میں حاصل کیے گئے تھے۔

6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی کو برطرف کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس حکم نامے کو لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن دونوں عدالتوں نے صدر کے حق میں فیصلہ دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں استدعا کی گئی لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی فیصلہ برقرار رکھا۔

(جاری ہے)


ریفرنسز :

1.ISLAMIC PAKISTAN: ILLUSIONS & REALITY By Abdus Sattar Ghazali

(http://www.ghazali.net/book1/contents.htm)

  1. Pakistan's Politics: A Personal View by Inayatullah

3.Pakistan in the Twentieth Century: A Political History Lawrence Ziring. Oxford University Press

  1. Constitutional and Political History of Pakistan. Hamid Khan. Second Edition. Oxford University Press

  2. پاکستان میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا سیاسی کردار، منیر احمد منیر

  3. Nuclear Deception: The Dangerous Relationship Between the United States and Pakistan. Adrian Levy,Catherine Scott-Clarke

  4. Vintage Cowasjee: A Selection Of Writings From DAWN 1984-2011 by Ardeshir Cowasjee

تبصرے (0) بند ہیں