چین کی حکمت عملی

10 اگست 2014
ایک ایسی دنیا میں ایک بین الاقوامی ضابطے کی تشکیل کیسے کی جائے جہاں بے حد مختلف قومی تقاضے اور مفادات موجود ہوتے ہیں؟
ایک ایسی دنیا میں ایک بین الاقوامی ضابطے کی تشکیل کیسے کی جائے جہاں بے حد مختلف قومی تقاضے اور مفادات موجود ہوتے ہیں؟

اگلے مہیںے، ایلن لین، ہنری کسنجر کی ایک نئی کتاب شائع کررہا ہے، جس کا نام ورلڈ آرڈر ہے- یہ اکیسویں صدی کے سب سے اہم چیلنج کا جواب دینے کی کوشش ہے:

کہ ایک ایسی دنیا میں ایک بین الاقوامی ضابطے کی تشکیل کیسے کی جائے جہاں بے حد مختلف قومی تقاضے اور مفادات موجود ہوتے ہیں-

اس اشاعت کیلئے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ چین نے بھی، جو ایسا ملک ہے جو کئی دہائیوں سے ایسے لیڈر سامنے لارہا ہے--- جس کا مقصد دوسرے مقاصد کے علاوہ، بزنس بھی ہے----- نئے گلوبل آرڈر کے بارے میں اپنا زاویہ نظر واضح کرنا شروع کیا ہے-

کسنجر کے نک چڑھے پن کے انداز سیاست نے ان کی پہلے کی عالمانہ تحریروں کی یاد بھلا دی ہے- ان میں سے ایک بنیادی تصور جس کا اعادہ انہوں نے ایسی دانشورانہ بصیرت، واضح استقامت اور مصمم ارادے کے ساتھ کیا تھا، وہ اس دنیا کیلئے ایک ایسے ضابطے (World Order) کی ضرورت تھا جو ہر ایک کیلئے قابل قبول ہو-

جس مضمون کی وجہ سے وہ 1957ء میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے وہ ان کا Nuclear Weapons and Foreign Policy پر شہرہ آفاق کام تھا- اور پھر انہوں نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا-

'Sino-Soviet Strategic Thoughts' پر ایک باب میں، انہوں نے ایک انقلابی یا انحرافی طاقت کی کوششوں کا تجزیہ کیا جو طاقت کے موجودہ توازن کو نئی شکل دینا چاہ رہا تھا تاکہ بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان رشتوں کا ایک نیا ڈھانچہ ترتیب دیا جاسکے؛ جیسے کہ، نپولین کا فرانس اور ہٹلر کا جرمنی-

انہوں نے لکھا؛

"ایک بین الاقوامی ضابطہ جس کے بنیادی اقدامات تمام بڑی طاقتوں کیلئے قابل قبول ہوں، وہی 'جائز' کہے جاسکتے ہیں--- ایک جائز ضابطہ کی پہچان سلامتی کی آخری حدوں تک جستجو نہیں؛ بلکہ ایک دوسرے پر بھروسہ اورجسمانی تحفظ ہوتا ہے- اور یہ اسلئے جائز نہیں ہے کہ تمام طاقتیں اپنی جگہ مطمئن ہیں، بلکہ کیونکہ اتنی زیادہ غیرمطمئن نہیں ہیں کہ پورے نظام کو لپیٹ دینا ہی اس کا علاج سمجھتی ہوں-"

1960ء میں ان کی کتاب The Necessity for Choice آئی جس کی نو منتخب صدر جان ایف کنیڈی نے تعریف کی تھی- کیونکہ موضوع بہت موثر طریقے سے پیش کیا گیا تھا؛

"ایک بین الاقوامی نظام کا استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ سلامتی کی ضرورت اور اپنے پر قابو پانے کی ذمہ داری کا احساس ایک دوسرے سے وابستہ ہو --- اور یہ توازن کیسے کیا جائے یہ تصوراتی طور پر طے کئے جانے کی بات نہیں ہے؛ یہی چیز ہے جو سفارت کاری کو ایک فن بناتی ہے سائینس نہیں- لیکن یہ توازن اسی وقت ممکن ہے جب بین الاقوامی ضابطے ( International System) مستحکم ہوں-"

ڈائیڈالوس (Daedalus) نے جو ایک بہت معتبر جرنل ہے 1968ء میں ' قیادت پر ایک نظر' (Studies in Leadership) پر ایک شمارہ شائع کیا جس میں کسنجر کا ایک مضمون بسمارک پر تھا جو جرمن ذرائع پر منحصر ایک اوریجنل ریسرچ تھا-

انہوں نے اپنے ان ہی خیالات کو پھر سے دہرایا؛

"کسی بھی عالمی نظام کا استحکام کم از کم دو باتوں پر منحصر ہے: وہ یہ کہ اس نظام کی بنیاد کس حد تک مضبوط ہے اور کس حد تک 'انصاف' اور 'برابری' کے اصول کو اس موجودہ نظام کا حصہ بنانے پر اتفاق ہے --- توازن استحکام کیلئے ضروری ہے، اخلاقی ہم آہنگی کی ضرورت بے ساختگی کیلئے ہوتی ہے اور ان کی عدم موجودگی میں کہ کون سی چیز 'منصفانہ' اور 'درست' ہے مذاکرات ممکن نہیں-"

اور یہ بات واضح ہے کہ موجودہ عالمی نظام اس امتحان پر پورا نہیں اترتا ہے- اس وقت صرف امریکہ کی بالادستی ہے-

لیکن جب ان پر عمل کا وقت آیا، تو کسنجر نے ان سچائیوں کو مسترد کر دیا جو انہوں نے ایک عالم کے طور پر کہی تھیں- چین پر ان کی کتاب میں انہوں نے چین کے عالمی رول کا ذکر تو کیا، لیکن اس بات پر قائم رہے کہ امریکہ کو "عالمی رول پر اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنا چاہئے-" --- روس کے زوال کے بعد ایک واحد سپرپاور کے طور پر- اور اسی 'نئے عالمی نظام ' (New World Order) کی صدر جارج ایچ ڈبلو بش نے 1991 میں توثیق کی- اور یہی وہ بات ہے جسے چین نے ہمیشہ مسترد کیا- بلکہ حالیہ دنوں میں اس نے اور آگے بڑھ کرایک نئے ورلڈ آرڈر کے ساتھ ساتھ تمام ریاستوں کا برابری کی بنیاد پر ایک 'نئے ایشیائی سلامتی کے تصور' کی ضرورت پر زور دیا، جس میں تمام علاقائی گروپوں مثلاً ایس سی او، سارک، آسین اور عرب لیگ کی شمولیت ہو- اس میں "ایک نئی قسم کی بڑی-طاقتیں بڑی طاقتوں کے درمیان مسائل کو سلجھائیں گی-"

11 جون 2014 کو، چینی سفیر وائی وائی نے زور دیکر کہا؛

"ہمیں دنیا کو (Multi-Polarisation) کی جانب لے کر جانا چاہئے- ترقی پذیرممالک کی نمایندگی بین الاقوامی معاملات میں زیادہ ہونی چاہئے، اور نئے عالمی قوانین کے بنانے میں برابری اور اجتماعی مشاورت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہئے- یو این، جی20، ایس سی او، برکس اور دوسرے ملٹی نیشنل اداروں کو مکمل آزادی سے اپنا کردار ادا کرنے کی آزادی ہونی چاہئے- تاکہ عالمی حکمرانی زیادہ منصفانہ اور مناسب ہو-"

حال ہی میں، صدر زی جن زنگ نے کھلے عام "ایشیا-پیسفک سلامتی کے باہمی اشتراک" کے نئے ڈھانچے کی تشکیل کا مطالبہ کیا جو آزاد، شفاف اوربرابری کی بنیاد پر ہو"- انہوں نے اس تصور پر زور دیا کہ یہ بات "ناقابل قبول ہے کہ صرف ایک ملک کی سلامتی کی بات کی جائے اور باقی ممالک کو غیر محفوظ چھوڑ دیا جائے-"

ایک اسکالر کے طور، کسنجر یہی خیالات رکھتے تھے- لیکن، افغانستان، عراق، لبیا اور شام کے بعد، ترقی پذیر دنیا کے ممالک یہی سوچتے ہیں کہ امریکہ کی بالادستی موجودہ عالمی نظام کے استحکام اور اس کے جواز کیلئے ایک خطرہ ہے-

چین اپنے اس موقف پر امریکہ کو ناراض کئے بغیر ڈٹا ہوا ہے- ترقی پذیر دنیا کی حمایت کی اسے ضرورت ہے، خصوصاً پاکستان اور ہندوستان کی-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں