سیکیورٹی اقدامات نے اسلام آباد کے شہریوں کی زندگی مشکل بنادی

ملٹری پولیس، رینجرز اور پولیس سمیت سیکیورٹی اہلکار شہر میں امن و امان قائم رکھنے اور کسی بھی قسم کے دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گشت کر رہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
ملٹری پولیس، رینجرز اور پولیس سمیت سیکیورٹی اہلکار شہر میں امن و امان قائم رکھنے اور کسی بھی قسم کے دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گشت کر رہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: نبیل اقبال سپرمارکیٹ میں بچوں کا انتظار کررہے تھے، جو عام طور پر چودہ اگست کو یوم آزادی منانے کے لیے ان کے اسٹال پر اپنے والدین کے ہمرا ہ بیجز اور جھنڈے خریدنے آتے تھے۔

راولپنڈی میں ڈھوکو ہاسو کے علاقے کے رہائشی نبیل مارکیٹ میں کتابوں کی ایک دکان پر بطور سیلزمین کام کرتے ہیں،لیکن پچھلے پانچ سالوں سے وہ اگست کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران کچھ اضافی رقم حاصل کرنے کے لیے بیجز اور جھنڈے فروخت کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا ’’میرے لیے یہ ایک مشکل دن تھا، اس لیے میں نے بیجز اور جھنڈوں کی فروخت سے صرف 100 روپے ہی کمائے تھے، ورنہ یکم اگست سے کم از کم روزانہ ایک ہزار روپے کی آمدنی ہورہی تھی۔‘‘

نبیل نے بتایا کہ یومِ آزادی منانے کے لیے بچے بیجز اور جھنڈے خریدنا پسند کرتے ہیں، لیکن سڑکوں کی بندش اور دہشت گردی کے خطرات کی وجہ سے والدین کے لیے اپنے بچوں کو مارکیٹ جانے کی اجازت دینا مشکل ہوگیا ہے۔

اسلم خان سیکٹر آئی-9 کے ایک رہائشی جو قومی اسمبلی کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’میرا پورا دن گھر پر گزر رہا ہے، اس لیے کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کےآنے والے لانگ مارچ کے مظاہرین کے روکنے کے لیے کنٹینرز کے ذریعے ریڈزون کو بند کردیا گیا ہے، اس لیے میرا آفس جانا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘

اسلم کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو ریڈزون کے علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے حکومت کے ان اقدامات سے ان لوگوں کے لیے پریشانیاں پیدا ہوگئی ہیں، جن کے دفاتر اس علاقے کے اندر ہیں۔

انہوں نے کہا ’’بدھ کا دن سوائے اسلام آباد میں پورے پاکستان کے لیے ورکنگ ڈے تھا۔‘‘

اسلام آباد کے ایک اور رہائشی نذیر حسین بھی ہیں، جو بلو ایریا میں پچھلے دس سالوں سے اپنی دکان چلا رہے ہیں، انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

نذیر حسین کہتے ہیں ’’یہاں کے دکاندارپہلے ہی میٹروبس پروجیکٹ کی وجہ سے پریشانی کا شکار تھے، لیکن پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے آنے والے لانگ مارچ نے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، اس لیے کہ ان کی دکانوں کو بند کردیا گیا ہے جو ان دکانداروں کے خاندان کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہیں۔‘‘

میرپور کے ایک رہائشی نواز عباسی آزاد جموں کشمیر پولیس میں بطور کانسٹبل کام کرتے ہیں، انہیں لانگ مارچ کے دوران ڈیوٹی دینے کے لیے دیگر اہلکاروں سمیت اسلام آباد طلب کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا ’’اگرچہ میں مقبوضہ کشمیر یا کابل کبھی نہیں گیا ہوں، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں سری نگر یا کابل میں ڈیوٹی دے رہا ہوں۔‘‘

بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی وفاقی دارالحکومت میں جاری صورتحال پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا، ان میں راولپنڈی کے رہائشی رفیق اختر بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے انہیں اپنی بڑی بیٹی کے اپینڈکس کے آپریشن کے لیے پمز جانا مشکل ہوگیا ہے۔

رفیق اختر نے کہا ’’ڈاکٹر نے مجھے بتایا تھا کہ بدھ کے روز آپریشن کے لیے اپنی بیٹی کو لے کر مجھے ہسپتال آنا ہوگا، لیکن سیکیورٹی اقدامات کی وجہ سے میرے لیے اسلام آباد پہنچنا ناممکن ہے۔‘‘

دیگر شہریوں کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کے لیے اسلام آباد یا راولپنڈی جانا مشکل ہے، اسی لیے لوگ اپنے گھروں پر رہنے پر مجبور ہیں۔

یہاں کے رہائشیوں نے کہا کہ جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے یومِ آزادی نہیں منا سکتے۔

مقامی لوگوں نے اس خوف کا بھی اظہار کیا کہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کا امکان ہے، جبکہ دہشت گرد اور خودکش حملہ آور لانگ مارچ کو نشانہ بناسکتے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت میں ڈان ڈاٹ کام کے نامہ نگار کے مطابق سڑکیں خالی پڑی ہیں جبکہ ملٹری پولیس، رینجرز اور پولیس سمیت سیکیورٹی اہلکار شہر میں امن و امان قائم رکھنے اور کسی بھی قسم کے دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گشت کر رہے ہیں۔

سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے غیرملکیوں اور سفارتکاروں نے بھی اپنی سرگرمیوں کو محدود کردیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں