اسلام آباد: قبائلی علاقوں کی خواتین میں خواندگی کی شرح تین فیصد کی خطرناک حد تک کم اور مستقل جمود کا شکار ہے۔

تعلیم کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے والے عوامل میں اسکولوں تک پہنچنے میں دشواری، ناقص معیارِ تعلیم، عمر کی کمتر شرح، عسکریت پسندی، بے گھری اور ان علاقوں میں رائج رسوم و روایات شامل ہیں۔

یہ بات سول سوسائٹی کے ایک ادارے شعور فاؤنڈیشن برائے تعلیم و آگاہی (ایس ایف ای اے) کی جانب سے تیار کی گئی ایک رپورٹ میں بیان کی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین سال سے تیرہ سال کی عمر کی 14.7 فیصد لڑکیوں نے کبھی کسی اسکول میں داخل نہیں کیا گیا تھا۔

لڑکوں کی 73 فیصد شرح کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکول میں داخلے کی مجموعی شرح 27 فیصد پر رُکی ہوئی ہے۔

اس کے بعد پرائمری کی طالبات کے ہائر سیکنڈری سطح میں داخلے کی شرح میں 33 فیصد سے 13 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے، جو ملک بھر میں سب سے کم شرح ہے۔

وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں صنفی مساوات کی انڈیکس (جی پی آئی) پرائمری سطح پر 0.52 فیصد اور سیکنڈری سطح پر 0.20 فیصد پر قائم ہے، جبکہ اسکول چھوڑنے کی شرح 77 فیصد ہے۔

شعور فاؤنڈیشن برائے تعلیم و آگاہی کی جانب سے کیے گئے ایک سروے مزید یہ بھی حقیقت سامنے آئی ہے کہ اسکولوں کی چاردیواری، ڈیسک، پنکھوں، پینے کے پانی اور بیت الخلاء کی عدم موجودگی، اساتذہ کی غیرحاضریاں، خواتین اساتذہ کی کمی اور اسکولوں تک رسائی میں دشواریاں تعلیمی عمل کو نقصان پہنچارہی ہیں۔

ثقافتی، روایتی اور سماجی رسم و رواج نے فاٹا کی خواتین انتہائی کمزور پوزیشن رکھتی ہیں۔ قبائلی روایات نے ناصرف انہیں کسی معاملے پر فیصلہ کرنے سے روکا ہوا ہے، بلکہ انہیں تعلیم تک ان کی رسائی بھی محدود کررکھی ہے۔

عسکریت پسندوں کے خلاف حکومت کے آپریشن کی وجہ سے بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوگیا ہے اور لاکھوں لوگوں کو نقلِ مکانی کرنی پڑی ہے، جس کی وجہ سے تعلیم ان کی ترجیحات میں سب سے کمتر سطح پر چلی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں