سمجھداری سے کام لیں، کہیں دیر نا ہوجائے

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2014
اسلام آباد میں سرکاری ٹی وی پر قبضے کے بعد مظاہرین نعرے بازی کر رہے ہیں — 1 ستمبر 2014 ، فوٹو اے پی
اسلام آباد میں سرکاری ٹی وی پر قبضے کے بعد مظاہرین نعرے بازی کر رہے ہیں — 1 ستمبر 2014 ، فوٹو اے پی

اس سے پہلے کہ نواز شریف صاحب کا کوئی مخالف مجھ پر الٹے سیدھے الفاظ کی بارش کر دے، میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نا ہی مسلم لیگ ن کا سپورٹر ہوں، نا ہی ووٹر، اور نا ہی میاں نواز شریف میری پسندیدہ شخصیات میں سے ہیں۔

پر آج جب وزیر اعظم نواز شریف اپنی مدت کے ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں، جو کہ بلا شبہ ان کی پوری سیاسی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے، تو کئی خود ساختہ سیاسی پنڈت نواز حکومت کے خاتمے کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں۔

پر مجھے رائیونڈ کے بادشاہ کے دفاع میں کچھ الفاظ کہنے کی اجازت دیجیے۔

1۔ نواز شریف پہلے ہی اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کر چکے ہیں۔

چار نشستوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بھلے ہی تاخیر سے، پر نواز شریف اب سپریم کورٹ سے پورے الیکشن کی تحقیقات کرانے کے لیے تیار ہیں۔ اپوزیشن کو اور کیا چاہیے؟ اعلیٰ عدلیہ کے چار ججز 30 دن کی مدت میں الیکشن کی تحقیقات کریں گے، جس کے ساتھ ساتھ روزانہ کی ڈیویلپمنٹ میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کی جاتی رہیں گی، اور یہ سب کچھ اس ادارے کی ضمانت سے ہوگا، جس کے اپوزیشن جماعت کے قائد مداح ہیں۔

آپ نے کیک مانگا تھا، اب وہ آپ کو پوری بیکری دینے کو تیار ہیں۔

2۔ انتخابی اصلاحات بھی کروانے کو تیار ہیں۔

یہ مانا جا سکتا ہے، کہ الیکشن کبھی بھی مکمل طور پر شفاف نہیں تھے، لیکن مسئلہ صرف الیکشن کے شفاف ہونے کا نہیں، بلکہ ان میں اصلاحات لانے کے فریم ورک کا بھی ہے۔

عمران خان حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، اور طاہر القادری پورا سسٹم ہی لپیٹ دینا چاہتے ہیں، پر نواز شریف آئین میں وضع کیے گئے جمہوری طریقہ کار کے ذریعے انتخابی اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔

اس کام کے لیے انتخابی اصلاحات کمیٹی بھی تشکیل دی جا چکی ہے۔ ہاں اس کی سربراہی کے لیے اسحاق ڈار سے بہتر لوگ مل سکتے تھے، شاید تحریک انصاف سے کسی کو صدارت کرنی چاہیے تھی۔ لیکن پھر بھی یہ تمام پارلیمانی پارٹیوں کی نمائندہ کمیٹی تھی، اور اپنا کام شروع کرنے ہی والی تھی، کہ آزادی اور انقلاب مارچ نے سب دھندلا دیا۔

اپوزیشن جو دیکھ نہیں پا رہی، یا دیکھنا نہیں چاہتی، وہ یہ ہے کہ انہیں انتخابی اصلاحات کے جائز مطالبے کی تکمیل کے لیے سسٹم کے تحت ہی چلنا ہو گا۔ "تب تک نہیں، جب تک نواز شریف اقتدار میں ہیں" کی تکرار نا صرف غیر جمہوری، بلکہ احمقانہ بھی ہے۔

3۔ اگر نواز استعفیٰ دیتے ہیں، تو ریاست نتائج کے لیے تیار رہے۔

ان کے استعفے کا مطالبہ نا صرف احمقانہ ہے، بلکہ یہ خطرناک بھی ہے۔ ذرا سوچیے، اگر نواز شریف نے استعفیٰ دے دیا، تو وہ کیا مثال قائم کریں گے؟

اگلی دفعہ اگر کوئی بھی شخص 5000 لوگوں کو جمع کر کے انہیں کنسرٹ سے تفریح فراہم کرے، انہیں منصفانہ غیر منصفانہ، اچھے برے کی بے بنیاد پٹیاں پڑھا کر پارلیمنٹ میں گھس جانے کا حکم جاری کر دے، تو لیجیے، مقصد حاصل ہو گیا۔ ریاست جھک جائے گی اور وزیر اعظم کے پاس استعفے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ آپ جیت تو جائیں گے، لیکن پاکستان کے استحکام کی قیمت پر۔

پھر ہر مہیںے اسلام آباد کی جانب لوگوں کے ہجوم مارچ کرتے نظر آئیں گے، جو اپنی طاقت کے ذریعے دار الحکومت کو یرغمال بنا لیں گے۔ آج عمران خان اور طاہر القادری ہیں، کل کوئی انتہائی دائیں بازو کی فرقہ وارانہ جماعت بھی ہو سکتی ہے، جس کے مطالبات خدا جانے کیا ہوں۔ پھر اس طرح کے سیاسی حالات میں آخر کون حکومت کر سکے گا۔

سیاست لچکدار ہونے کا نام ہے۔ نواز شریف نے سخت رویہ اختیار کیا، لیکن اس بات کا کوئی جواز نہیں، کہ انہوں نے مسئلے کو سلجھانے میں دیر کی۔ ماڈل ٹاؤن واقعے کی ایف آئی آر بنیادی حق تھا، اور انتخابات مین مبینہ دھاندلی کی تحقیقات بھی ایک جائز مطالبہ تھا۔

اب ان کے پاس دونوں متاثرہ جماعتوں کے لیے بہتر اقدامات ہیں۔ پر طاہر القادری اور عمران خان کی سیاست سے اب ریاست پاکستان کا مذاق بنتا جا رہا ہے۔

پہلے جھڑپوں میں 3 لوگ جان کی بازی ہار گئے، اس کے بعد مظاہرین نے پی ٹی وی پر حملہ کیا۔ اس عمل کی صرف مذمت کافی نہیں ہے۔ اگر معنی خیز اور تعاون پر مبنی مذاکرات کیے جاتے، تو اس افرا تفری سے شروع ہی میں نمٹا جا سکتا تھا۔

آئین ریاست کی عملداری قائم کرتا ہے۔ اس کے خلاف جو بھی ہو، وہ انارکی ہے۔ بلا شبہ ریاست پاکستان بہت جدوجہد سے گزر رہی ہے، لیکن پھر بھی عراق اور شام جیسے حالات سے بہت بہتر ہے۔

لیکن اگر یہ ہجوم آج کامیاب ہو گیا، تو کل کو ہر پاکستانی، بشمول آج کے انقلابیوں کے، اسی تشدد کے زیر اثر رہنے پر مجبور ہو گا، جس سے مندرجہ بالا ممالک متاثر ہیں۔

نواز شریف کی حمایت کرنے سے کوئی شخص مسلم لیگ نواز کا حامی نہیں بن جاتا۔ بلکہ یہ ایک جمہوری ضمیر کی آواز ہے، جس کی بناء پر کوئی ریاست کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

یہ سسٹم لاتعداد سیاسی کارکنوں کی جانوں کی قربانی کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ مزید دیر ہوجائے، خان صاحب اور قادری صاحب کو راضی ہو کر آگے بڑھنا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری رائل ہالووے یونیورسٹی آف لندن سے سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں فارغ التحصیل ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرebadahmed@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں