دھرنے: اب بہت ہو چکا

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2014
لکھاری کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔
لکھاری کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔

اب ہمیں ہتھیار کو کھل کر ہتھیار کہنا ہو گا۔ ہمیں اب ایسا مزید ظاہر نہیں کرنا چاہیے، کہ اسلام آباد بحران کے ذمہ دار سارے فریق اس سب کے خاتمے کی حقیقی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مسئلے کو مذاکرات سے پر امن طور پر حل کرنے کی ہر جانب سے اٹھنے والی آوازوں کا کوئی نتیجہ بھی نکلے گا، کیوںکہ وہ سب مسائل جن پر مذاکرات ہو سکتے تھے، ہو چکے۔ یہ نہیں ظاہر کرنا چاہیے، کہ یہ مسئلہ صرف انتخابی دھاندلیوں یا ماڈل ٹاؤن واقعے کی وجہ سے ہے۔ ان سب بہانوں کو جھٹک دینے کے بعد ہی ہم جمہوریت کا تحفظ کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔

ہمیں سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے، کہ آئین و جمہوریت اس بات کی اجازت کبھی بھی نہیں دیتے کہ کوئی مظاہرہ، جو بھلے کتنا ہی پر امن کیوں نا ہو، غیر معینہ مدت کے لیے جاری رہے۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 16 کہتا ہے، کہ "ہر شخص کو پر امن اور غیر مسلح طور پر اجتماع کا حق حاصل ہے، لیکن ان قانونی پابندیوں کے تحت، جو پبلک آرڈر کو یقینی بنانے کے لیے لگائی جائیں"۔

دھرنے اب بالکل بھی پر امن نہیں رہے ہیں۔ مظاہرین شروع سے ہی کیل گڑے ہوئے ڈنڈوں، اور غلیلوں سے مسلح ہیں۔ ملک کے دارالحکومت کی مرکزی شارع پر 17 دن طویل دھرنا ناقابل فہم ہے۔ پبلک آرڈر اب خطرے میں ہے۔ دھرنوں کے قائدین کھلے عام اپنے کارکنوں سے پولیس کا مقابلہ کرنے کو کہتے ہیں۔ ایک شخص شورش و بغاوت کی بات کرتا ہے، تو دوسرا شخص سول نافرمانی کی کال دیتا ہے۔ وہ شہادت کی آوازیں بلند کر کے، کفن پہن کر، اور قبریں کھود کر تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔

لیکن حکومت قانون کا نفاذ کرنے میں اتنی ناکام کیوں ہے؟ لاؤڈ سپیکر کاٹ کر، کنٹینر ہٹا کر، ان قائدین کو نظر بند کر کے عوام کو مزید بھڑکانے سے کیوں نہیں روکا جاتا۔ سپریم کورٹ شارع دستور خالی کرانے کے اپنے حکم کی عدم تعمیل پر اتنی پرسکون کیوں ہے؟ حکومت اس وقت ایک طرف کیوں ہو جاتی ہے جب مٹھی بھر مظاہرین پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

اس لیے، کیوںکہ ہر کسی کو کمرے میں موجود اس بے نام طاقت سے خطرہ ہے۔ وہ طاقت، جس نے یہ حکم جاری کیا کہ مسئلے کو پر امن مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، اور اتوار کو اس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے انکار کر دیا۔ وہی طاقت، جو ہمیشہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کب ملک کے حالات جمہوری بساط لپیٹ دینے جتنے خراب ہوچکے ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے فوج کے ساتھ تعلقات نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایک انقلابی مارچ، جو "سٹیٹس کو" ختم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، اس کا فوج کی حمایت میں نعرے بازی کرنا انوکھی بات ہے۔ اس سے زیادہ انوکھی بات یہ ہے، کہ سول نافرمانی کی کال دینے والے لوگ جی ایچ کیو کی جانب سے کال آنے پر مسکراتے ہوئے فرمانبرداری کے ساتھ کچھ ہی منٹوں میں جی ایچ کیو پہنچ جاتے ہیں۔

"مشتعل اور بے قابو" مظاہرین نے پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی عمارتوں پر حملہ کیا، اور پھر فوج کی جانب سے درخواست کیے جانے پر فوراً ہی پیچھے ہٹ گئے۔ اگر مارچ کرنے والوں پر فوج کا اتنا ہی کنٹرول ہے، اور مسئلے کو پر امن طور پر حل کرنے میں وہ اتنی ہی سنجیدہ ہے، تو وہ عمران خان اور طاہر القادری سے کیوں نہیں کہتی کہ دونوں دار الحکومت سے کچھ دن کے لیے نکل جائیں، تاکہ معاملات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔

لیکن چلیں تصور کر لیتے ہیں، کہ فوج ایسی درخواست کرنے کی پوزیشن میں نہیں، یا کرنا نہیں چاہتی۔ اس کے بعد پارلیمانی پارٹیوں، سول سوسائٹی، اور ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز کے پاس جمہوریت بچانے کے لیے کیا راستے موجود ہیں؟

ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے، کہ وزیر اعظم سے جمہوری نظام کی بقاء کی خاطر استعفیٰ طلب کیا جائے۔ لیکن کیا ایسی قربانی سے واقعی جمہوریت بچ جائے گی؟ کیا اس کی وجہ سے پارلیمنٹ ہمیشہ کے لیے غیر جمہوری قوتوں کے تابع نہیں ہو جائے گی؟ اس پارلیمںٹ نے وزیر اعظم کو منتخب کیا، اور انہیں اب بھی اس کا اعتماد حاصل ہے۔ اگر وہ غیر مرئی قوتوں کے حمایت یافتہ کچھ مظاہرین کی وجہ سے صرف ایک دن کے لیے بھی استعفیٰ دے دیں، تو وہ کس طرح کی مثال قائم کریں گے؟

ملک کی تمام جمہوری قوتوں کو پارلیمںٹ اور اس کے منتخب وزیر اعظم کے تحفظ کے لیے متحد ہو جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی شارع دستور خالی کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ تمام پارلیمانی پارٹیوں کو ایک متفقہ قرارداد پیش کرنی چاہیے، تاکہ سپریم کورٹ کے احکامات پر سول سوسائٹی کے دوسرے حلقوں، بشمول بار ایسوسی ایشنز کی مدد سے عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔

اور اگر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نافرمانی جاری رکھیں، اور اگر سول انتظامیہ ان احکامات کو نافذ کرنے میں ناکام رہے، تو سپریم کورٹ کو آرٹیکل 190 کے تحت فوج کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے لیے طلب کرنا چاہیے۔ اور اسی وقت، حکومت اور پارلیمنٹ کو عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مان لیے گئے مطالبات پر عمل درآمد کے لیے مضبوط اقدامات کرنے چاہییں۔

امید ہے، کہ اس طرح دھرنے مزید تشدد کے بغیر اپنے اختتام کو پہنچیں گے۔ اس کی وجہ سے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی بھی بچ جائیں گی۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے، کہ اس سے حکومت اور سپریم کورٹ کو اپنے آپ کو جمہوری نظام کے قیام میں مخلص ثابت کرنے کا موقع ملے گا، جس سے ان کا وہ امیج بہتر ہوگا، جو اس وقت تنازعات کی وجہ سے خراب ہو رہا ہے۔

اور کسی بھی صورت میں کم از کم یہ ضرور معلوم ہو جائے گا، کہ کون کہاں کھڑا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں