چھوٹے باغیچوں کی اہمیت

15 ستمبر 2014
غریب خواتین کو لیز پر چھوٹے پلاٹ دیے جاسکتے ہیں، جہاں وہ اپنے گھر والوں کے لیے کھانے کی چیزیں اگا سکیں۔
غریب خواتین کو لیز پر چھوٹے پلاٹ دیے جاسکتے ہیں، جہاں وہ اپنے گھر والوں کے لیے کھانے کی چیزیں اگا سکیں۔

جمہوریت ایک غلط سمجھا گیا لفظ ہے، جسے اسلام آباد میں جاری حالیہ سیاسی ڈرامے میں حد سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔

پارلیمنٹ میں موجود قانون سازوں اور دھرنوں کے لیڈروں نے اتنی بار جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی ہے، کہ اب ان سیاسی تصورات کے بارے میں افسانوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ کوئی بھی عوام کو اختیار دینے کی بات نہیں کر رہا، جو کہ جمہوریت کا مقصد ہونا چاہیے۔ عوام کو باختیار بنانا ایک ایسا تصور ہے، جو پاکستان میں اجنبیت کا شکار ہے۔ اور عوام کو بااختیار بنانے کے لیے کسی انقلاب کی ضرورت نہیں ہے۔

اپنے دیس سے ہزاروں میل دور، گلاسگو میں سب کام معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ اس وقت گلاسگو اسکاٹ لیںڈ کی آزادی کے ریفرینڈم کے متعلق بحث کی زد میں ہے۔ میرے لیے یہ اسکاٹش طرز زندگی کو قریب سے دیکھنا کا ایک اچھا موقع تھا۔ گذشتہ ہفتے آئیرین، جس سے میں تھوڑا پہلے ہی متعارف ہوئی تھی، کے توسط سے میں نے Berridale Allotment and Gardens کے اوپن ڈے میں کچھ وقت گزارا۔

یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے، جو ہم لوگ اپنی شہری خواتین کو بااختیار بنانے لیے باآسانی لانچ کر سکتے ہیں۔

گلاسگو کی آبادی تقریباً 6 لاکھ ہے، جبکہ اس کا علاقہ 175 سکوائر کلومیٹر ہے۔ اس شہر نے عام استعمال کی جگہوں کو عوامی تحویل میں دینے کے تصور کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ سٹی کونسل نے ریاست کی ملکیت زمین پر 26 الاٹمنٹ قائم کی ہیں، جنہیں مختلف لوگوں کو باغبانی کے لیے لیز پر دیا جاتا ہے۔ کونسل کے نزدیک اس طرح کی الاٹمنٹ کے فائدوں میں لوگوں کو ملنے جلنے کے مواقع فراہم کرنا، سکون حاصل کرنا، ورزش، اور کم قیمت پر کھانے کی پیداوار شامل ہے۔

بیری ڈیل ایک ایسی ہی الاٹمنٹ ہے۔ 51 ممبرز رکھنے والی یہ الاٹمنٹ پونے دو ایکڑ پر محیط ہے۔ ممبران مخلتف سہولیات کے لیے سالانہ 67 پاؤنڈ کی فیس ادا کرتے ہیں۔ پچھلے ہفتے بہترین پیداوار کا مقابلہ ہوا، جس میں سورج مکھی کے شوخ پھولوں کے علاوہ غیر معمولی سائز کی گاجریں بھی شامل تھیں۔

ہمارے شہروں میں اس طرح کی بیری ڈیل کیوں نہیں ہو سکتیں۔ یہ ان زمینوں پر قائم کی جاسکتی ہیں جو اب تک بلڈروں کے قبضے سے محفوظ ہیں، اور غریب خواتین کو الاٹ کی جاسکتی ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان کے لیے کھانا اگا سکیں۔ ماہرین کے مطابق اس میں کوئی بہت زیادہ زمین نہیں چاہیے ہوگی۔ نجمہ صادق، جو شرکت گاہ گرین اکنامکس کی روح رواں ہیں، نے کچھ سال پہلے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا تھا، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کیسے فلیٹ کی بالکونی میں ایک باغ اگایا جا سکتا ہے۔

زرعی اصلاحات کے لیے آواز بلند کرتے کرتے ہمیں دہائیاں گزر گئیں ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے 1990 میں زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دیا گیا تھا، جس کے خلاف عوامی ورکرز پارٹی نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔ جاگیرداروں کی قیادت میں سیاسی جماعتوں نے اس کی بھرپور مخالفت، اور سپریم کورٹ نے حد سے زیادہ تاخیر کی، جس کی بناء پر لگتا ہے کہ اب زمینوں کی مستحقین میں تقسیم نہیں ہوپائے گی۔ زرعی اصلاحات کے لیے جدوجہد کو ابھی جاری رہنا ہے۔

لیکن اس دوران الاٹمنٹ پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اگر شہری زمین کے چھوٹے پلاٹ مستحق خواتین کو شرائط پر لیز کر دیے جائیں، تو وہ نا صرف غربت سے کچھ حد تک چھٹکارہ پائیں گی، بلکہ اپنے بچوں کا پیٹ بھی پال سکیں گی۔

لیکن اسکیم کو مناسب ضوابط کے ساتھ ترتیب دینا ہوگا۔ الاٹمنٹ صرف خواتین کو ہی کی جائے، کیونکہ خواتین چھوٹے قرضوں کے پروگراموں میں زیادہ قابل اعتماد ثابت ہوئی ہیں، جبکہ زمین کسی بھی صورت میں منتقل نا کی جا سکے۔ کمرشلائزیشن کی اجازت نا دی جائے۔

کے ایم سی اور بلدیاتی اداروں کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ بالکل امید نہیں کی جاسکتی کہ یہ پراجیکٹ کو اس کی حقیقی روح کے مطابق چلائیں گے۔ لیکن ان سے زمین کے چھوٹے پلاٹ فلاحی تنظیموں کو لیز پر دینے کے لیے کہا جاسکتا ہے، تاکہ وہاں کھانے کی اشیاء اگائی جا سکیں۔

اس کے لیے ضرور ڈونیشن اور فنڈز کی ضرورت پڑے گی، تاکہ پانی، بیجوں، اور زرعی سامان کا انتظام کیا جا سکے۔ ایسی جگہ کو باہمی تعاون کے تحت چلایا جائے، اور خواتین لیز ہولڈرز سے کہا جائے کہ وہ ہر ماہ ایک معمولی رقم کا تعاون کریں۔ اس کے علاوہ زیادہ باہمت اور پر عزم ممبروں کو باغبانی اور زراعت پر کلاسیں بھی دی جا سکتی ہیں، تاکہ وہ اس زمین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکیں۔

ان بیری ڈیلز سے ہمارے شہر کو ہرا بھرا رکھنے میں مدد ملے گی۔ مثال کے طور پر، کراچی میں پہلے ہی سڑک کنارے کافی نرسریاں قائم ہیں۔ ان کی وجہ سے دھویں سے بھرا ماحول بھی خوشگوار لگتا ہے۔ لیکن یہ بنیادی طور پر کمرشل مقاصد کے لیے ہوتی ہیں، پھر بھی مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں۔

پر خواتین کے لیے قائم کی گئی بیری ڈیلز کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ان میں اگایا گیا کھانا انہی خواتین کا ہونا چاہیے جنہوں نے اسے اگایا ہے۔ اور کیونکہ زمین کوئی بہت وسیع و عریض علاقہ نہیں ہوگی، اس لیے یہ خوف بھی نہیں ہوگا کہ کوئی بلڈر اسے ہتھیا کر اس پر کثیرالمنزلہ شاپنگ سینٹر قائم کر لے گا۔

ہمارے درمیان موجود اچھے لوگوں کے لیے یہ خواتین کو اپنی مدد آپ کے مواقع فراہم کرنے کا اچھا موقع ہے۔


انگلش میں پڑھیں۔

www.zubeidamustafa.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں