بجٹ 2013-2014
نواز شریف گورنمنٹ کی تشکیل کے سات دن کے اندر اندر پیش کیا گیا 3.6 ٹریلین روپے کا پہلا بجٹ، جسے فنانس منسٹر اسحاق ڈار صاحب نے پیش کیا ، عوام دوست سے زیادہ کاروبار دوست نظر آرہا ہے-
وہ ووٹرز جنہوں نے نواز شریف کو اقتدار میں آنے کے لئے ووٹ دیے، ممکن ہے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں 1 فیصد سے 17 فیصد تک اضافے کی شکل میں، قیمتوں میں اضافے کا بوجھ قبول نہ کریں- انکا رد عمل ہی نیشنل اسمبلی میں بجٹ پر ہونے والی بحث کے رخ کا تعین کرے گا-
مذکورہ بجٹ اگر اپنی حالیہ شکل میں منظور ہو گیا تو سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، پیداوار بڑھے گی، پاکستان کو آئ ایم ایف سے قرضہ لینے میں سہولت ہوگی، کیونکہ یہ ہمارے اھم قرض خواہ کی ابتدائی شرائط کو پورا کرتا ہے- بہرحال، ایک عام آدمی کو آگے سال، اور زیادہ معاشی چیلنجز کا سامنا ہوگا کیوں کہ ٹیکسوں کے تجویز کردہ تناسب سے مہنگائی پر جو اثرات مرتب ہونگے اس کے مقابلے میں عام انسان کی آمدنی میں کمی ہو گئی ہے-
حکومت اپنی پہلی پالیسی بیان کرتے ہوئے لوگوں کو یہ تجویز کر رہی ہے کہ مستقبل میں پیداواری ترقی سے لطف اندوز ہونے کے لئے انہیں ابھی ایڈجسٹمنٹ کی تکلیف برداشت کرنا ہوگی- اقتصادی استحکام کے لئے جہاں دیگر اقدامات جو عوام پر اثرانداز ہوں گے ان میں، بجٹ 2014 میں جی ایس ٹی کی شرح میں بڑھا کر 17 فیصد اضافہ اور انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ شامل ہیں-
بڑی پاکستانی کمپنیاں، جو پی پی پی کے پچھلے پانچ سالہ دور حکومت میں، ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہی تھیں، جس کے نتیجے میں پیداواری تناسب اوسطاً 3 فیصد رہ گیا تھا، ان کی ترغیب کے لئے کارپوریٹ ٹیکس 35 فیصد سے کم کر کے 34 فیصد کر دیا گیا ہے- ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا ہے کہ اس کی شرح آیندہ چار سالوں میں 30 فیصد کر دی جاۓ گی- اس سے آیندہ مالیاتی سال میں کارپوریٹ منافع میں ایک فیصد اضافہ ہو گا-
گورنمنٹ بڑے کاروبار کا اعتماد بحال کرنےکے لئے کوشاں ہے تا کہ انہیں جارحانہ سرمایہ کاری کے ایسے منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب ہو، جنہیں وہ اچھے وقتوں کے لئے بچا کر رکھے ہوۓ ہیں- ایک تجزیہ نگار کے مطابق " پاکستان کے بڑے کاروباری جوانوں کے لئے مستقبل کی آمد ہو گئی ہے -"
بجٹ پی ایم ایل-این کی علامتی دستاویز ہے، جو اس کے آزاد اقتصادی مارکیٹ کے فلسفے کی عکاسی کرتی ہے- یہ اس بات کا ثبوت ہے کے پارٹی نے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے ہی اپنا ہوم ورک کر لیا تھا کیوں کہ یہ بجٹ جلد بازی میں بنایا ہوا نہیں ہے- اس میں وہ تمام علامتی اقدامات موجود ہیں جو مللک میں شریف حکومت کا نشان ہیں-
اس میں عوامی مصرف کے وہ تمام لو ٹکٹ اقدامات موجود ہیں (نوجوان انٹرنشپ، انکم سپورٹ، مختصر قرضے، ٹیکنیکل ٹریننگ، لیپ ٹاپ کی تقسیم، وغیرہ) لیکن ترقیاتی بجٹ کا مرکز بنیادی ڈھانچے یعنی (موٹروے، ریلوے) جیسے منصوبوں پر ہوگا-
اگر پارلیمنٹ نے اس بجٹ پیکج کی تصدیق کر دی تو نجی سیکٹر کو اعتماد ملے گا جو پہلے ہی سے نواز شریف کو مارکیٹ کا سورما سمجھتے ہیں- "مجھے اس بات پر کوئی حیرانی نہیں ہوگی اگر مالیاتی سال کے اختتام تک جیسے جیسے نجی اور عوامی سیکٹر میں انویسٹمنٹ کا رجحان بڑھے گا، پاکستان اپنے پیداواری ہدف سے آگے نکل جاۓ،" ایک سینئر بزنس لیڈر نے ڈان ڈاٹ کوم کو فون پر بتایا-
اسمبلی میں فنانس منسٹر اسحاق ڈار نے جی ایس ٹی میں 16 سے 17 فیصد اضافہ تجویز کیا- کم از کم اسی شرح سے تمام اشیا مہنگی ہو جائیں گی- حالانکہ قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، اکثر افراط زر کے اقدامات کے اثرات کو بڑھاتا ہے اور نتیجتاً اشیا کی قیمتوں میں غیر متناسب اضافہ ہو جاتا ہے-
انہوں نے ساٹھ دن کے اندر توانائی سیکٹر کے سرکلر ڈیبٹ کو ختم کر کے، موجودہ 500 بلین کا آدھا کرنے کی تجویز کی- بہرحال یہ واضح نہیں ہے کہ ایسا وہ کس طرح کرنا چاہتے ہیں-
بجٹ میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ریونیو کی کمی کو غیرملکی درآمد سے پورا کی جاۓ گا- ان درامدات کے ذریعہ کی تفصیلات واضح نہیں کی گئیں-
یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ رجسٹرڈ سپلائرز اور ڈسٹریبیوٹرز کے ساتھ کاروبار کرنے والے تجارتی اداروں پر 2 فیصد ٹیکس چھوٹ متعارف کروا کر مستند دستاویز کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے-
"بجٹ کارپوریٹ سیکٹر کی امیدوں کے مطابق ہے- یہ کاروباری ماحول کو بہتر بناۓ گا کیوں کہ حکومت نے آئ ایم ایف کے مشورے پر عمل کیا ہے اور اسکا ہدف اگلے مالی سال تک خسارے کی شرح کو 8.8 سے لے کر 6.3 فیصد تک لے جانے کا ہے، تقریباً ڈھائی فیصد کمی کی تجویز کی گئی ہے-" اقتصادی پالیسی پر سٹینڈرڈ چارٹرڈ کے نمائندے سائم علی نے بجٹ پر یہ راۓ دی-
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ "مارکیٹ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی پر خوش ہوگی- جی ایس ٹی کا کمپنیوں پر اثر نہیں ہوگا اس کا بوجھ وہ صارف پر ڈال دیں گے- مختصر یہ کہ بجٹ 2013 سرمایہ مارکیٹ کے لئے ایک اچھی خبر ہے-"