ہر پاکستانی کی طرح میرے بھی ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے، کہ بجلی کے اس بڑھتے ہوئے بحران کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ لیکن اب وفاقی حکومت نے خود ہی اتنی وجوہات پیش کر دی ہیں، کہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہی ذمہ دار ہے۔

کے الیکٹرک لمیٹڈ تقریباً دو کروڑ لوگوں کے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرتی ہے۔ ایک عرصہ دراز سے کے الیکٹرک تیل سے چلنے والے اپنے دو پاور پلانٹس کو کوئلے پر منتقل کرنا چاہ رہی ہے، لیکن کسی ناقابل فہم وجہ کی بنا پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (NEPRA) اجازت دینے میں تاخیر کر رہی ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے، کہ دوسرے ترقی پذیر ممالک کے بر عکس، پاکستان کی توانائی کی ضروریات بنیادی طور پر پانی، اور تھرمل (گیس اور فرنس آئل) سے پوری ہوتی ہیں۔

پچھلے کئی سالوں سے مقامی طور پر ملنے والی سستی گیس ختم ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے باہر سے خریدے گئے فرنس آئل پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ تیل سے مہنگے داموں بجلی کی پیداوار، روپے کی گھٹتی ہوئی قدر، اور بلوں کی ریکوری میں کمی نے گردشی قرضے (سرکلر ڈیٹ) کے کانٹے دار مسئلے کو جنم دیا۔

گذشتہ سال اقتدار میں آتے ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے توانائی کمپنیوں کو 500 ارب روپے جاری کیے، اور نیشنل اینرجی پالیسی 2013 کے تحت کچھ آئی پی پیز کو اپنے پلانٹ تیل سے کوئلے پر منتقل کرنے کی اجازت دی۔

نیپرا وہ واحد ادارہ ہے، جو بااختیار طور پر بجلی کے نظام کو ریگولیٹ کرتا ہے، اور سرمایہ کاروں اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کا عہد کیے ہوئے ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے، کہ جب وفاقی حکومت ایک بحران سے دوسرے کے بیچ میں جھول رہی ہے، تو اسی وقت نیپرا نے تیل سے چلنے والے پلانٹس کی کوئلے پر منتقلی کی اجازت نا دے کر صارفین کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا ہے۔

اپنی نااہلی کی وجہ سے نیپرا نے پاکستان اور بیرونی سرمایہ کاروں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے، جن میں سے کچھ تو کام شروع کرنے کو تیار ہیں۔

ذیل میں تیل سے چلنے والے پلانٹس کو کوئلے پر منتقل کرنے کے کچھ فوائد دے رہا ہوں۔ اگر پلانٹس کو کوئلے پر منتقل کر دیا گیا، تو یہ فوائد کمپنیوں اور صارفین دونوں کو پہنچیں گے۔

1۔ پیداواری لاگت (18-17 روپے فی یونٹ) میں 8 روپے تک کی کمی۔

2۔ فرنس آئل کی درآمد کم ہونے سے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ۔

3۔ توانائی کے شعبے میں مزید بیرونی سرمایہ کاری۔

4۔ نئے پلانٹس کی تعمیر کے وقت (4 سال) میں 2 سال تک کی کمی۔

5۔ ایندھن دستیاب ہونے کے باعث بجلی کی دستیابی میں اضافہ۔

6۔ فضائی آلودگی میں کمی، کوئلہ فرنس آئل کے مقابلے میں کم سلفائڈ اور نائٹرائڈ پیدا کرتا ہے۔


اس وقت کی صورت حال:


آئی پی پیز حب پاور کمپنی لمیٹڈ، لال پیر پاور لمیٹڈ، پاک جین پاور لمیٹڈ، اور صبا پاور کمپنی لمیٹڈ نے اپنے پلانٹس، جن کی مجموعی پیداوار 2000 میگا واٹ ہے، کی تیل سے کوئلے پر منتقلی کا ایک سال پہلے بیڑہ اٹھایا تھا۔

لیکن پالیسی کی منظوری میں نیپرا کی تاخیر کی وجہ سے یہ کمپنیاں اپنے پراجیکٹ شروع کرنے میں ناکام ہیں۔

کوئلے کی اہمیت کو سمجھ کر کے الیکٹرک نے اپنے فرنس آئل سے چلنے والے پلانٹس کو کوئلے پر منتقل کرنے کا کام نیشنل پاور پالیسی 2013 سے پہلے ہی شروع کر دیا تھا۔

ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے، کہ چین کی ایک انجینیئرنگ، پروکیورمنٹ، اور کنسٹرکشن فرم ہاربن الیکٹرک انٹرنیشنل کو پلانٹس کی کوئلے پر منتقلی کا ٹھیکہ دیا جاچکا ہے۔ پراجیکٹ کے لیے درکار ماحولیاتی اجازت نامے بھی حاصل کر لیے گئے ہیں، اور کئی نجی سرمایہ کار بھی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔

دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو کے الیکٹرک کوئلے پر منتقلی کے پراجیکٹ میں کافی آگے ہے۔


تو پھر اس کام میں کیا رکاوٹ ہے؟


نیپرا۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک تقریباً ایک سال سے نیپرا سے اجازت نامے کی درخواست کر رہا ہے۔

نیپرا اس بات کو تسلیم کرتا ہے، کہ لائسنس کی درخواست 5 ماہ پہلے جمع کرائی گئی تھی، لیکن اب بھی اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے، کہ ستمبر کے پہلے مہینے میں لائسنس کے اجراء کے لیے بلائی گئی میٹنگ کو کسی وجہ کے بغیر ہی ملتوی کر دیا گیا تھا۔

خواجہ نعیم، جو کہ نیپرا کے پنجاب سے ممبر ہیں، اور موجودہ وفاقی لیڈرشپ کے خاندان اور دوستوں میں سے ہیں، نے اس بات کا اعادہ کیا، کہ لائسنس اور ریٹ دس دن کے اندر جاری کیا جائے گا،۔ نیپرا کے قوانین بھی کہتے ہیں کہ پورے پراسس میں 2 ماہ سے زیادہ نہیں لگیں گے۔

پاکستان کی سب سے بڑی تجارتی تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے بھی کے الیکٹرک کے پلان کے لیے اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔


پھر آخر تاخیر کس بات کی ہے؟


ہم اینرجی سیکٹر پروفیشنلز کے نزدیک مسئلہ وہی پرانا کراچی بمقابلہ پنجاب لابی سسٹم ہے۔

کیا تاخیرصرف اس لیے کی جارہی ہے کہ پراجیکٹ کراچی کی بہتری کے لیے ہوگا؟

کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ کے الیکٹرک نجی ملکیت میں ہے، اور حکومتی ملکیت میں موجود اداروں سے بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے؟

صرف نیپرا ہی ان سوالوں کے جواب دے سکتی ہے۔


تاخیر کی قیمت:


سادہ سے حساب سے بھی یہ بات واضح ہے، کہ فرنس آئل سے پیدا کی جانے والی بجلی کوئلے سے تقریباً دو گنا مہنگی ہے۔

پیداواری لاگت صارفین سے ریکور ہونے والی رقم کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ ہے۔

بھلے ہی کے الیکٹرک کا کوئلے پر منتقلی کا پراجیکٹ اس کی 3000 میگا واٹ کی مجموعی پیداوار کے مقابلے میں صرف 420 میگا واٹ کا ہے، لیکن نیپرا کی نااہلی کی وجہ سے کئی صارفین کے لیے یہ بجلی کی اضافی قیمت کا سبب ہے۔

کے الیکٹرک کے 420 میگا واٹ کے پلانٹ کی کوئلے پر منتقلی سے زرمبادلہ کی مد میں سالانہ 30 کروڑ ڈالر کی بچت ہوگی۔ اندازہ لگائیں، اگر نیپرا کے اجازت نامے کا انتظار کر رہی ساری آئی پی پیز کو کوئلے پر منتقل کر دیا جائے، تو کتنی بچت ہوگی؟

پانچ مہینے کی تاخیر نے صارفین کو براہ راست 10 کروڑ ڈالر کا دھچکا پہنچایا ہے، اور اس میں وہ نقصان شامل نہیں، جو کہ کراچی میں بجلی چوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ایک عام آدمی کی سمجھ سے یہ سب باہر ہے۔ میرے لیے نیپرا کا رویہ نا صرف غیر قانونی، بلکہ مجرمانہ ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں