پاکستان سیلاب کو روکنے میں ناکام کیوں؟

19 ستمبر 2014
ضلع ملتان میں سیلاب سے تباہی کا ایک منظر— اے پی فوٹو
ضلع ملتان میں سیلاب سے تباہی کا ایک منظر— اے پی فوٹو
شیرشاہ کے علاقے میں پاک فوج کے اہلکار لوگوں کو مظفرگڑھ کی دوسری جانب پہنچانے میں مدد فراہم کررہے ہیں— اے پی پی فوٹو
شیرشاہ کے علاقے میں پاک فوج کے اہلکار لوگوں کو مظفرگڑھ کی دوسری جانب پہنچانے میں مدد فراہم کررہے ہیں— اے پی پی فوٹو

رواں برس کے سیلاب ہونے والی والی تباہی کا تخمینہ ابھی لگایا جانا باقی ہے کہ کیا یہ 2010 جیسے سپرفلڈ جیسا تھا یا نہیں۔

اس کا نتیجہ جو بھی سامنے آئے مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہوجاتا ہے کہ پاکستان ابھی تک مون سون کے سیلاب کے مسئلے سے نمٹنے یا جانی و دیگر نقصانات کو کم کرنے میں ناکام ہے۔

سیاستدان، جہادی اور خودساختہ سیلابی ماہرین اسے پاکستان کو ڈبونے کی ہندوستانی سازش قرار دینے میں آسانی محسوس کرتے ہیں بہ نسبت اس کے سرحد کے اس پار سیلاب سے نمٹنے کی موثر تیاریوں پر زور دیں۔

مثال کے طور پر جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کا اس بارے میں کہنا ہے"ہندوستان پانی کو پاکستان پر حملے کے لیے استعمال کررہا ہے، ہم حالت جنگ میں ہے، ہندوستان کی آبی جارحیت کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل تک لے کر جانا چاہئے"۔

اسی طرح کے خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کیا، جو اس وقت مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان تنازعات کے خاتمے کے لیے پل تعمیر کرنے میں مصروف ہیں تاکہ ملک میں جمہوری نظام کو بچایا جاسکے، مگر وہ ہندوستان پر دریائے چناب میں سیلاب کی شدت بڑھانے کا الزام لگانے کے موقع سے فائدہ اٹھانا نہیں بھولے۔

اس طرح کے سیاسی بیانات سے سیلاب سے متاثرہ افراد کی کوئی مدد نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اس سے حکومت پر لوگوں کی زندگیوں اور املاک کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے پر دباﺅ ڈالا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے سابق انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ نے کہا"موجودہ سیلاب کوہ ہمالیہ کے خطے میں دریائے چناب کے طاس میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آیا، ہندوستان کے پاس اس دریا پر پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی اہم ڈیم نہیں کیونکہ پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے تحت اور چناب پر کام کرنے والے ہائیڈرو پاور منصوبوں جیسے بگلہیار کے ذریعے وہ اپنے خطے سے پاکستان میں جانے والے سیلاب کو زیادہ بڑھا نہیں سکتا"۔

جہاں تک دریائے جہلم کی بات ہے تو جماعت علی شاہ کا کہنا تھا"اس دریا کے پانی کا صرف بیس فیصد حصہ ہندوستان سے آتا ہے، جبکہ باقی بہاﺅ آزاد کشمیر سے اس کا حصہ بنتا ہے"۔

تاہم انہوں نے ہندوستان پر پاکستانی دریاﺅں میں پانی کے بہاﺅ کی معلومات منتقل نہ کرنے کا الزام عائد کیا جو کہ مختلف معاہدوں کے تحت اس کا فرض ہے۔

ان کا کہنا تھا" ہندوستان غیرجانبدار انتظامیہ کے زیرتحت ٹیلی میٹری نظام کی تنصب کے لیے تیار نہین ہوا جو دونوں ممالک کو درست دریائی ڈیٹا سے سیٹلائٹس تصاویر کے ذریعے آگاہ رکھ سکتا ہے جس سے بروقت اقدامات میں مدد ملتی، اس طرح کی صورتحال میں ہمیں سیلاب کی درست پیشگوئی کی اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا تاکہ نقصانات کو محدود اور زندگیوں کو بچایا جاسکے"۔

ماہرین جیسے جماعت علی شاہ کا ماننا ہے سیلاب پاکستان میں " سب سے تباہ کن قدرتی آفت" پے، 2010 کا سیلاب نے پاکستان کے عوام اور معیشت کو بہت زیادہ متاثر کیا مگر بدقسمتی سے حکومت تاحال فلڈ منیجمنٹ پلاننگ کو بنانے میں ناکام رہی ہے۔

گزشتہ دہائیوں کے دوران سیلاب سے نمٹنے کے لیے ادارہ جاتی انفراسٹرکچر کو تشکیل دینے کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے ہیں، فیڈرل فلڈ کمیشن کی تشکیل 1977 میں ہوئی، جبکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیوں کو 2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد تشکیل دیا گیا، مگر جماعت علی شاہ نے اس نکتے کی جانب نشاندہی کرائی کہ یہ ادارے سیلاب کے دوران زیادہ موثرثابت نہیں ہوتے کیونکہ بیوروکریٹس ان پر غلبہ رکھتے ہیں جبکہ انہیں فلڈکنٹرول انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے سرمائے کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

محکمہ آبپاشی پنجاب کے ایک ریٹائر عہدیدار اور محقق چوہدری مظہر علی نے کہا"ہمیں ایسے منظم ادارے کی ضرورت ہے جو سیلاب کے اسباب اور اس کے اثرات پر تحقیق کروانے کا ذمہ دار ہو، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زندگیوں کے نقصان اور اقتصادی نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہیں"۔

انہوں نے کہا"ہندوستان پر الزام تراشی ی بجائے ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم سیلاب سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، کیا کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ ہم نے 2010 کے سیلاب کے بعد سیلابی شدت میں کمی لانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کچھ بھی نہیں، جب ایمرجنسی سامنے آتی ہے تو ہم بغیر منصوبہ بندی کے اقدامات شروع کردیتے ہیں، کیونکہ ہم اس کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے، جب سیلاب گزر جاتا ہے تو ہم پھر سوجاتے ہیں اور جب تک اگلا بحران جھنجھوڑ کر اٹھاتا ہے تو وہی افراتفری میں اقدامات کی مشق شروع ہوجاتی ہے"۔

سیلاب کو روکا نہیں جاسکتا تاہم متعدد ممالک نے فلڈ منیجمنٹ اور کنٹرول حکمت عملیوں کے ذریعے املاک اور فصلوں کی تباہی میں کمی اور انسانی جانوں کے ضیاع کو کم کرلیا ہے۔

جماعت علی شاہ نے کہا"اگر ہم سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو محدود کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی مکمل فلڈ منیجمنٹ منصوبہ بندی اور پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی،یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اقدامات سے سیلاب کے تباہ کن اثرات کو کم کرے"۔

فلڈ منیجمنٹ کے تعمیراتی اقدامات میں فلڈ کنٹرول انفراسٹرکچر جیسے پشتوں اور بندوں کو مضبوط بنانا، سیلابی پانی کا رخ بدلنے کے لیے چینیلز اور ذخیرہ کرنے کے مقامات اور بیراجوں کی صلاحیت بڑھانا شامل ہے، جبکہ غیر تعمیراتی اقدامات سیلاب کی پیشگوئی اور انتباہ کی صلاحیت بڑھانے پر مشتمل ہے۔

محکمہ موسمیات کے ایک سنیئر عہدیدار نے بتایا"حالیہ برسوں میں سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور مستقبل میں اس میں مون سون زون کی تبدیلی کے باعث مزید شدت کا خدشہ ہے، آپ سیلاب کو کنٹرول تو نہیں کرسکتے مگر آپ جانی و مالی نقصانات کو بہتر تیاریوں کی مدد سے ضرور کنٹرول کرسکتے ہیں، آخر ہم کب تک اپنے لوگوں کو ڈوبتے دیکھتے رہیں گے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

زاہد بٹ Sep 19, 2014 11:38am
جاصر جمال! آپ کو شائد پتا نہیں کہ جماعت الدعوة اور جماعت اسلامی دونوں غیر سرکاری ادارے ہیں، اور وہ دونوں ادارے ہی اپنی بصات کے مطابق سیلاب زدگان کی امداد میں لگے ہوے ہیں، آپ ان سے امید کر رہے ہیں کہ وہ اس سیلاب کا مستقل حل نکالیں؟ آپ کی عقل پہ حیرانی ہے !
علی Sep 20, 2014 07:20pm
زاہد بٹ بھائی، کچھ لوگ ہیں جو ان دونوں جماعتوں کو صرف تنقید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، پھر ناصر جمال کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں کہ امیریکن پیڈ صحافی ہے، یعنی بکائو مال۔۔۔ اس لیے اس سے دونوں جماعتوں کے لیے ہمدردی کے الفاظ کی توقع رکھی نہیں جاسکتی۔۔۔