ایک اچھی شروعات

اپ ڈیٹ 28 ستمبر 2014
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن صحت کے اداروں کی خدمات حاصل کرنیوالوں کے مفادات میں بہترین طور پر کام انجام دے سکتا ہے — فائل فوٹو / اے پی
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن صحت کے اداروں کی خدمات حاصل کرنیوالوں کے مفادات میں بہترین طور پر کام انجام دے سکتا ہے — فائل فوٹو / اے پی

پنجاب اسمبلی نے 2010 میں پنجاب ہیلتھ کیئر ایکٹ پاس کیا تھا۔ اس ایکٹ میں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن (PHC) کے قیام کی سفارش کی گئی تھی اور کمیشن کو صحت کی نگہداشت کے معیار، اسپتالوں کے انتظام اور جعلی عطائیوں کو کنٹرول کرنے کی زیادہ بڑی ذمہ داریاں دی جانی تھیں۔

ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے صحت کی خدمات فراہم کرنے والے تمام اداروں کی رجسٹریشن، ان کے معیار کی نگرانی، اور صحت کی نگہداشت میں ناکامی اور غلط کام کی چھان بین کرنا شامل ہے۔ یہ کمیشن صحت کے اداروں میں کام کرنے والے عملے کی رہنمائی کرسکتا ہے اور انھیں ہدایات بھی دے سکتا ہے۔

اس ایکٹ کو منظور ہوئے چار سال کا عرصہ ہوچکا ہے، کمیشن فعال ہے اور اپنے اختیارات کو استعمال کررہا ہے جن کی مزید وضاحت اس کے قواعد اور ضوابط میں کردی گئی ہے۔ اس کے پاس ماہرین اور افرادی قوت ہے، ایک بورڈ اور چیف آپریٹنگ افسر بھی موجود ہے۔

کمیشن نے دو بنیادی دستاویزات تیار کی ہیں: ایک تو مریضوں کے حقوق اور دوسرے صحت کی نگہداشت کی خدمات فراہم کرنے والے عملے اور اداروں کے کم سے کم معیار کے بارے میں ہے۔ یہ دستاویزات کمیشن کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ کمیشن نے ڈینگی کی روک تھام کے لیے ہدایات بھی جاری کی ہیں۔

حالیہ برسوں میں صحت کے شعبے، خاص طور پر نجی شعبے کے ہسپتالوں کے بے ہنگم طریقے سے بڑھنے کی وجہ سے پی ایچ سی کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ کمیشن نے اپنے فرائض کو انجام دینے میں چند قابل تحسین اقدامات کیے ہیں، مثلاً بعض اسپتالوں میں علاج معالجے میں لاپرواہی کے واقعات کی چھان بین کرنے اور ملوث پائے جانے والے افراد پر جرمانے بھی کیے گئے۔

تاہم، اس کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ PHC کو واضح طور پر اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ علاج معالجے میں ہونیوالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات میں اس کا رول کیا ہے۔ مثلاً، پنجاب کارڈیالوجی سنٹر کا سانحہ، جس میں درجنوں مریض غیر معیاری اور ایکسپائرڈ دواؤں کے استعمال کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے لیکن کمیشن نے اس کی تحقیقات نہیں کی۔ پریس رپورٹس کے مطابق وجہ یہ تھی کہ کمیشن کے پاس شکایت درج نہیں کروائی گئی۔

یہ معاملہ کافی الجھا ہوا ہے، کیونکہ اکثر صورتوں میں جو لوگ سرکاری اسپتالوں میں جاتے ہیں وہ سماجی یا معاشی لحاظ سے اس قابل نہیں ہوتے کہ شکایت لے کر جائیں۔ اس کی وجہ سے اہم سانحات کی تحقیقات نہیں ہوپاتیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایسے معاملات میں حکومت کی نظر میں کمیشن کا کردار واضح ہونا چاہیے۔

حالیہ برسوں میں، حکومت نے ہسپتالوں میں اندرونی طور پر تحقیقات کروائیں جبکہ کمیشن اپنے بلائے جانے کا انتظار کرتا رہا۔ اگر حکومت طبی علاج معالجے میں ہونے والی لاپرواہیوں کی تحقیقات کی ذمے داری پہلے اس ادارے کو دیدے تو یہ کمیشن ایک موثر ریگیولیٹری تنظیم کا رول انجام دے سکتا ہے۔

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کا دوسرا فرض تمام ہیلتھ کیئر اداروں کی رجسٹریشن ہے۔ یہ ایک بڑا کام ہے کیونکہ اس قسم کے ادارے تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ یہ بات واضح نہیں کہ انھیں کس طرح رجسٹر کیا جائے گا، لائسنس کس طرح دیے جائیں گے، اور ان پر کس طرح نظر رکھی جائے گی۔ اس کے بعد اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمیشن کم سے کم معیار کا نفاذ کس طرح کرے گا جبکہ ہیلتھ کیئر مراکز کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کمیشن کا عملہ مختصر ہے۔

جہاں تک پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے ریگیولیٹری اختیارات کا تعلق ہے، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو ان سے اختلاف ہے۔ پریس رپورٹوں کے مطابق، پی ایم اے نے صحت کے شعبہ کو بحیثیت مجموعی منظم کرنے، لائسنس دینے اور رجسٹریشن کے معاملات میں پی ایچ سی کے کردار کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پی ایم اے، جس کا اس شعبے سے اہم تعلق ہے، کے تحفظات کے علاوہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہیلتھ کیئر شعبے میں مزید قواعد و ضوابط بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کو اپنے طور پر پابند کرنے کا موجودہ نظام موثر ثابت نہیں ہوا ہے، جبکہ صحت کی خدمات کی فراہمی کا معیار سال بہ سال گھٹتا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت کی خدمات کے تمام پہلووں پر پی ایم اے اور پی ایچ سی ہم خیال ہوں۔

اس سے جڑا ہوا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) اور پی ایچ سی کے درمیان ان کے رول کے تعلق سے واضح حدود موجود نہیں ہیں۔ اگرچے پی ایم ڈی سی کے فرائض طبی تعلیم کے معیار کو برقرار رکھنے تک محدود ہیں، لیکن یہ ادارہ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کو لائسنس بھی دیتا ہے۔ اسی لیے پی ایم ڈی سی علاج معالجے میں ہونے والی لاپرواہیوں کے بارے میں بھی کسی حد تک ذمے دار ہے کیونکہ وہ یہ بھی فیصلہ کرتے ہیں کہ کوئی ڈاکٹر پریکٹس کرسکتا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں وہ تحقیقات بھی کرسکتا ہے اگرچے کہ اس کے رول کی واضح طور پر وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پی ایم ڈی سی اور پی ایچ سی کے دائرہ کار کا واضح تعین کیا جائے۔

دونوں اداروں کو چاہیے کہ علاج معالجہ میں ہونے والی لاپرواہیوں کو روکنے کے لیے مل جل کر کام کریں، اور جو افراد اس میں ملوث پائے جائیں ان کا لائسنس منسوخ کردیں۔ اس کے علاوہ، پی ایچ سی اور پی ایم ڈی سی میں مزید تعاون کی ضرورت ہے تاکہ عطائیوں کو نکال باہر کیا جاسکے جو خود کو ڈاکٹر ظاہر کرتے ہیں۔ پی ایچ سی ابھی اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں ہے لیکن ان باتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو اس کو ایک موثر ادارہ بنایا جاسکتا ہے جسے حقیقی اختیارات حاصل ہوں اور جسے اپنے اسٹیک ہولڈروں کی وسیع تر حمایت حاصل ہو۔ ایک بااختیار اور موثر پی ایچ سی صحت کے اداروں کی خدمات حاصل کرنیوالوں کے مفادات میں بہترین طور پر کام انجام دے سکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ


لکھاری ڈویلپمنٹ کنسلٹنٹ اور پالیسی تجزیہ کار ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں