تبدیلی کا پیش خیمہ

01 اکتوبر 2014
وقت کے وقت ایسے بڑے واقعات پیش آتے ہیں جو تبدیلی کے عمل کو تیز کردیتے ہیں،مگرایسے حالات کسی فرد کے پیدا کردہ نہیں ہوتے—
وقت کے وقت ایسے بڑے واقعات پیش آتے ہیں جو تبدیلی کے عمل کو تیز کردیتے ہیں،مگرایسے حالات کسی فرد کے پیدا کردہ نہیں ہوتے—

ہمارے سیاسی اور دانشورانہ منظرنامے میں جو سوالات مقبول ترین ہیں وہ یہ کہ کون پاکستان کو تبدیل کرے گا؟ عمران خان اگرچے اس بلند ترین مقامات کے یقینی امیدوار ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ یہاں مسئلہ خود سوال میں چھپا ہے۔

معاشرے بے حس و حرکت وجود نہیں ہوتے جہاں تبدیلی اسی وقت آئی جب مسیح ہمیں اپنی رحمت کے لیے منتخب کرلے۔ وہ ایک زندہ جرثومے کی طرح ہوتے ہیں جو مسلسل تبدیل ہوتا ہے، ہاں وقت کے وقت ایسے بڑے واقعات پیش آتے ہیں جو تبدیلی کے عمل کو تیز کردیتے ہیں، مگر ایسے حالات کسی فرد کے پیدا کردہ نہیں ہوتے، چاہے وہ شخصیات ایسے حالات کے قریب آکر اس سے جڑ بھی جائے۔

مثال کے طور پر پاکستان میں 1950 کی دہائی کے آخر اور ساٹھ کی دہائی کے شروع میں چھائی سرمایہ دارانہ ماڈرائزیشن ساٹھ کی دہائی کے دوسرے حصے میں اصل سیاست سے جڑے طبقے کے ابھرنے سے سر کے بل جاگری تھی۔ لاکھوں عام افراد اس عہد میں سیاست سے جڑ کر ایوب مخالف تحریک کا خاص اور نظام مخالف سیاست کا عام چہرہ بن گئے۔

اور یہ مخلص سیاسی ورکرز صرف پاکستان میں ہی نہیں ابھرے بلکہ عالمی سطح پر سیاست میں یہ رجحان دیکھنے میں آیا۔ طالبعلموں نے مئی 1968 میں پیرس کا کنٹرول سنبھال لیا، امریکہ میں ویت نام جنگ کے خلاف بے شمار احتجاج ہوئے جبکہ افریقہ اور مشرقی ایشیاء میں نوآبادتی نظام کے خلاف تحریک عروج پر پہنچ گئی۔

جو لوگ اس سوال کہ ' کون پاکستان بدلے گا؟' کے مختصر جواب کے خواہشمند ہیں، وہ اس سے واقف نہیں کہ کس طرح سیاسی ورکرز کی پوری نسل نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں خیالات اور تحریک کو تبدیلی کی راہ میں ڈالا جو دہائی تک برقرار رہی، اور وہ لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ معاشرے میں تبدیلی بڑی تعداد میں باشعور اور مناسب طور پر منظم کارکنوں کے بغیر ممکن نہیں جو اقتدار کا اسٹرکچر تشکیل دے سکیں۔

دنیا یقیناً ان جارحانہ دنوں سے آگے بڑھ گئی ہے اور انقلابی نسل کے خلاف ہوا تو 70 کی دہائی کے آخر میں ہی چل پڑی تھی اور اس کے بعد اسی کی دہائی میں ہونے والی مزاحمت نوے کے عشرے کی ابتدا تک ختم ہوچکی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ پرعزم نوجوانوں کی نئی نسل آخر کار طویل نیند کے بعد اٹھ کر آگے آئی ہے، تاہم ان کے مقاصد اور طریقہ مختلف ہے۔ قلمی تحریروں اور پمفلٹ کے بجائے تبدیلی کے خیالات کو آگے بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے، جبکہ ان کا زیادہ زور مراعات یافتہ نظام کے خلاف ہونے کے بجائے شہری حقوق کی جانب ہے۔

اس کی مثالیں پوری دنیا میں موجود ہیں۔ عرب انقلابی لہر سے لے کر قبضے کی تحریکوں تک، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نئی نسل کے اندر سیاسی مباحثے اور مشق کے اثرات میں اضافہ ہورہا ہے، اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے، چھوٹے مگر بااثر نوجوان کارکنوں کی جماعت بائیں بازو کی سیاست میں نئی توانائی بھر رہی ہے، مگر اس ملک یا کہیں اور یہ بات واضح ہے کہ اس نئی طرز کی سیاست میں ایک اہم عنصر غائب ہے اور اس کے بغیر نئے مقاصد اور طریقہ کار فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرسکتے۔

میں پرانے طرز کی مخلوق جسے سیاسی جماعت کہا جاتا ہے کی جانب اشارہ کررہا ہوں، متوسط طبقے کے شہری عام طور پر کرپشن کے واقعات، ناانصافی اور غریبوں کو نظرانداز کرنے والے سیاسی نظام کے خلاف عموماً سیاسی جماعتوں کی مذمت کرتے ہیں، مگر پھر بھی مرکزی بورژوی جماعتیں ایسا ذریعہ ہیں، جس سے عام افراد اپنے سیاسی جذبات کا اظہار کرسکیں چاہے انتخابی نظام میں خامیاں ہی کیوں نہ ہو۔

مراعات یافتہ طبقے کے یہ انتخابات بامقصد سیاسی تبدیلی کے لیے بہت کم جگہ فراہم کرتے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی نسل نے ایک مضبوط ساخت کا انفراسٹرکچر مراعات یافتہ مرکزی سیاسی جماعتوں، تاجر تنظیموں، کاشتکار گروپس، ثقافتی محاذ، طلبہ تنظیمیں وغیرہ سے باہر رہ کر تشکیل دیا تھا، یہ انفراسٹرکچر اسی کی دہائی کے شروع میں بوسیدہ ہونا شروع ہوا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

ماضی کے مخصوص ساخت کے پیٹرن کو اس عہد میں بدلنے کی ضرورت نہیں تھی مگر بائیں بازو کی تنظیموں کے بغیر معاشرے میں طاقت کے اسٹرکچر کی تبدیلی ممکن نہیں۔

یہ بیسویں صدی کی بہترین روایات تھیں جسے گزشتہ چند برسوں میں ابھرنے والے نئی نسل کے سیاسی کارکنوں کے عظیم اقدامات سے جوڑنا چاہیے۔ اس طریقہ کار میں وقت لگے گا کیونکہ حالیہ دنوں میں کوئی معاشرتی سطح پر ایسا تلاطم نہیں آیا جیسا ساٹھ کی دہائی کے آخر میں دیکھا گیا تھا جس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو سیاسی سرگرمیوں کی جانب مائل کیا تھا۔

2007 کی مشرف مخالف تحریک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی اور 2012 میں بھی اس قوت کو حرکت دینے کی طاقت کافی کم نہیں۔

ان دو برسوں میں حالات دائیں بازو کی جانب منتقل ہوئے ہیں مگر ایک پھر مستحکم قائدانہ نظم و ضبط اس وقت کسی سمجھوتے پر تیار نہ ہونے والوں میں گھرا ہوا ہے، یقینا ایک بائیں بازو کی جماعت اور مخلص کارکن ہی آج کے اس تضادات بھرے معاشرے کو انصاف پر مبنی بنا کر ایک انسانی ہمدردی کے معاشرے میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس سے وابستہ ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں