اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں گزشتہ روز پروین رحمان قتل کیس کی سماعت کے دوران سندھ پولیس نے تسلیم کیا کہ اس کیس کی تفتیش میں پولیس کی صلاحیت محدود ہوگئی ہے۔

یاد رہے کہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو گزشتہ سال 13 مارچ کو کراچی کے علاقے منگھوپیر میں فائرنگ کرکے اس وقت ہلاک کردیا گیا تھا، جب وہ دفتر سے اپنے گھر واپس جارہی تھیں۔

جرائم کی تفتیش کرنے والی ایجنسی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اور اس کیس کی تفتیش کے لیے قائم مشترکہ ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ سلطان علی خواجہ نے چیف جسٹس ناصرالمک کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل عدالتی بینچ کو بتایا کہ پروین رحمان کے قتل میں ملؤث محفوظ اللہ بھالو گزشتہ ہفتے ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا تھا۔

تاہم عدالت نے ڈی آئی جی پر یہ واضح کیا کہ محفوظ اللہ بھالو کے مبینہ قتل سے عدالت اس کیس کو ختم نہیں کرسکتی ہے، اس لیے کہ یہ ایک عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

ڈی آئی جی سلطان علی خواجہ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ پولیس اس کیس میں اپنی تفتیش جاری رکھے گی اور کہا کہ انٹیلی جنس بیورو کی مدد سے اس قتل میں ملؤث دیگر افراد سے بھی تفتیش کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیش سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی ہے کہ سماجی ورکر کے قتل میں لینڈ مافیا کا کردار تھا۔

سماعت کے دوران عدالت نے سوال کیا کہ آخر وہ کون سا گینگ ہے جو کراچی کے علاقے کٹی پہاڑی میں سرگرم ہے۔

اس موقع پر درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ راحیل کامران شیخ نے افسوس کا اظہار کیا کہ مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) نے بااثر جماعتوں کے وسیع مفاد میں جان بوجھ کر اس کیس میں لینڈ مافیا کے کردار کو نظر انداز کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے بورڈ آف ریونیو کے متعلقہ حکام کو بھی تفیتش کا حصہ بنانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں