ہمارا سول ملٹری تنازعہ

05 اکتوبر 2014
ہماری ملٹری ہمیشہ سے ہی سیاست میں دخل اندازی کی عادی ہے، اور وہ کبھی بھی سویلینز کو کنٹرول لیتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔
ہماری ملٹری ہمیشہ سے ہی سیاست میں دخل اندازی کی عادی ہے، اور وہ کبھی بھی سویلینز کو کنٹرول لیتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔

جب سینیٹر رضا ربانی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں کہا، کہ سول اور ملٹری قیادت کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کی ضرورت ہے، تو ان کے پاس ایک اہم نکتہ تھا۔ اس بات سے قطع نظر، کہ حالیہ سیاسی بحران میں کون جیتے گا اور کون شکست کھائے گا، یہ بات تو طے ہے کہ ملک میں جمہوریت اور آئینی بالادستی کی جڑیں ابھی تک مضبوط نہیں ہیں، اور ہماری سیاسی کلاس اور معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ حکومتوں کی تبدیلی کے لیے ملٹری کی براہ راست یا بلاواسطہ مداخلت کو ضروری سمجھتا ہے۔

ہماری ملٹری ہمیشہ سے ہی سیاست میں دخل اندازی کی عادی ہے، اور وہ کبھی بھی سویلینز کو کنٹرول لیتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔ ہمارے منتخب لیڈر اپنے گھر کو ٹھیک کرنے میں ہی اتنے ناکام ہیں، کہ وہ ملک کو لاحق حقیقی چیلنجز سے نمٹنے کا کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملٹری کا میدان میں آ کر ہمیں ہم سے ہی بچانا ایک رحمت ہے۔

جس طرح ہم اپنے سول ملٹری تنازعے کے حل کی طرف جاتے ہیں، یہ کوئی سادہ اور آسان فہم نہیں ہے۔ اس وقت ہماری خارجہ، تجارتی، اور داخلی سیکیورٹی پالیسیاں ہماری دفاعی پالیسی کے تحت ہیں، جس کا لبادہ قومی سلامتی پالیسی کا ہے۔

ہماری ملٹری یہ سمجھتی ہے کہ ایسی پالیسی وضع کرنا اور اس کا نفاذ مکمل طور پر اس کے دائرہ کار میں ہے۔ قدرتی طور پر اس کی وجہ سے سول ملٹری تنازعہ جنم لیتا ہے، کیونکہ ملٹری خود اپنا کردار اور اپنی ذمہ داریاں وضع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ایک جنرل پر مقدمہ چلانے، یا دوسرے جنرلوں کو خوش رکھنے سے سول ملٹری عدم توازن کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے، تو اسے دوبارہ سوچنا چاہیے۔ ماضی میں ملٹری کے غلبے کی وجہ سے اداروں اور سماجی طور پر کچھ ایسے اصولوں اور معیارات نے جنم لیا ہے، جس کی وجہ بحران کے دوران ملٹری اور سیاسی شخصیات کے ایسے رویے سامنے آتے ہیں، جن کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا پورا سیاسی نظام اسی تمہید پر قائم ہے، کہ ملٹری ہی فوڈ چین میں سب سے اوپر ہے۔

آخر کیوں ایک وزیر اعظم، جس کو پارلیمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے، اپنے آرمی چیف سے ثالث بننے کے لیے کہتا ہے؟ انہیں عوام کو یہ دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، کہ آرمی چیف ان کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے خلاف نہیں۔ کیوں عمران خان اور طاہر القادری آرمی چیف کی جانب سے بلائے جانے پر بھاگتے بھاگتے ان سے ملنے پہنچ گئے؟ کیوں ان دونوں نے آرمی چیف کی دائیں جانب جگہ بنانے کی کوشش کی؟ کیا یہ "وسیع تر قومی مفاد" تھا جس کی وجہ سے جنگ لڑ رہی فوج کے سربراہ کو سیاسی جھگڑے سلجھانے کے لیے میدان میں کودنا پڑا؟

جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا، کہ جب سیاسی لیڈر ملک کو بحران سے نکلنے میں ناکام ہوجائیں، اور اس وقت اگر فوج خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے تو یہ ایسا گناہ ہے، جس کے لیے کوئی بہانہ نہیں چل سکتا"۔

پھر جنرل مشرف نے بھی ایک دفعہ کہا تھا، کہ جب ایسی حکومت ہو، جو استحکام کی علامت آخری ادارے (فوج) کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہو، تو جسم (قوم) کو بچانے کے لیے ٹانگ (آئین) کاٹی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ حال ہی میں ہم نے مصر کے جنرل سیسی کو بھی دیکھا، جنہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ سیاسی مظاہرے خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتے ہیں، جس سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، اور پھر ملٹری کے پاس مداخلت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ اور یہ بھی کہ حکومت بنانے کے لیے قانونی جواز انتخابات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، لیکن عوام سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے اس جواز کو چھین کر کسی اور کو دینے کے مجاز ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے، تو ان کا مطلب یہ تھا کہ ایک ایسا سیاسی ماڈل، جس میں سڑکوں پر مظاہروں کے بعد فوج کے ذریعے حکومت تبدیل ہو، ٹھیک اور قابل قبول ہے۔

اس لیے کچھ لوگوں کے نزدیک اسکرپٹ رائٹر موجود ہیں، کیونکہ (1) اس وقت حکومت کو گھر بھیجنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ (2) عمران خان اور طاہر القادری کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے مظاہروں کے بعد اپنا قانونی جواز کھو چکی ہے، اور اگر صورت حال کا جلد حل نا نکالا گیا، تو حالات خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ (3) ملٹری مداخلتیں ماضی کا قصہ نہیں ہیں، (4) ہماری ملٹری کی نا ہی مداخلت کرنے کی طاقت ختم ہوئی ہے، اور نا ہی ریاست کے محافظ کے طور پر اس کا خود ساختہ کردار ختم ہوا ہے۔

میرے پرانے دوست اور مشہور دانشور ڈاکٹر عاقل شاہ کی کتاب The Army and Democracy, an incisive analysis of military politics in Pakistan، فکر خیز سیاسی اور ملٹری لیڈروں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ ڈاکٹر عاقل شاہ کی بنیادی دلیل یہ ہے، کہ ملٹری کے کچھ ایسے اصول ہیں، اور زمینی سیاسی عدم تحفظ اور نیشن بلڈنگ کے مسائل کے بارے میں اس کا تجربہ اس طرح کا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی سیاسی مداخلتوں کو وجہ مل پائی ہے، اور ریاست اور معاشرے میں اس کا کردار و اختیار مزید بڑھا ہے۔

ڈاکٹر عاقل شاہ ایک مضبوط دلیل پیش کرتے ہیں، کہ پاکستان میں ملٹری پروفیشنلزم کی شکل کچھ اس طرح کی بن گئی ہے، کہ یہ فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے بجائے سیاست میں کھینچتا ہے۔ جبکہ پاکستان آرمی، جو کہ سویلین جمہوریت کے اصولوں سے ناواقف ہے، اسے اب بھی غیر مشروط طور پر جمہوریت کو واحد حل کے طور پر قبول کرنا باقی ہے۔

ہمارے سیاست دان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے، ان کی ضروریات کو پورا کرنے، اور انہیں جنگلوں سے نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن اگر اس طبقے کی اکثریت ماضی میں فوجی مداخلتوں کی پیداوار ہے، تو کیوں لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اب کی بار مداخلت نئے نتائج لائے گی۔ چلیں ہم بوسیدہ نظام کو اٹھا کر پھینک دیتے ہیں، تو اس کے متبادل کیا لائیں گے؟ کیا ہمارا سسٹم ہماری فوج کے ناکام تجربات کی وجہ سے بوسیدہ اور گل سڑ نہیں گیا؟

ایک فعال حکومت کو بھی ہموار سول ملٹری تعلقات کے حصول میں بہت مشکلات ہوں گی، کیونکہ اس وقت سول اور ملٹری اداروں کے کردار ایک دوسرے کو مکمل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی حدود میں تجاوز کررہے ہیں۔ جب تک فوج بااختیار ہے، نئے سیاسی کھلاڑی فوجی حمایت حاصل کرنے کو اپنی کامیابی سے تعبیر کرتے رہیں گے۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے، تو پاکستان کے مسائل ایسے ہیں، کہ ملٹری مداخلت کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ہمارا سول ملٹری تنازعہ ہمیں ختم کرتا جارہا ہے۔ اس کو حل کرنے کے لیے ہمیں سیاسی اور ملٹری اشرافیہ کے درمیان ایک سنجیدہ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، جس میں تین بنیادی باتوں پر اتفاق کیا جائے۔

1۔ ریاست کے مستقبل کے بارے میں ہمارا وژن کیا ہے۔ آیا ہم اسے داخلی طور پر فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں، یا سیکیورٹی اسٹیٹ۔ اور بین الاقوامی سطح پر ہم اسے تبدیلی پسند بنانا چاہتے ہیں یا تقلید پسند۔

2۔ کون کیا کرے گا؟ کیا خارجہ پالیسی دفاعی پالیسی کے تحت بنے گی؟ اور آخری بات کس کی مانی جائے گی؟

3۔ حکومت کی تبدیلی کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ کیا یہ قانون کے تحت ہوگی یا سڑکوں پر؟

ایک بار جب ہم وژن اور کھیل کے ضابطوں پر متفق ہوجائیں گے، تو اداروں کے اصولوں، اور نئے سویلین اور ملٹری لیڈروں کو نئے اصولوں پر لانا آسان کام ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @babar_sattar کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

abdulrauf akhtar Oct 07, 2014 01:20am
THE WRITER NEED'S TO GO THROUGH THE EDUCATION SYSTEM OF THE ARMY OFFICER'S PROMOTION'S AT THE HIGHEST LEVEL THEN COMPARE IT WITH THE CIVILIAN LEADERSHIP AND THEIR VISION , IF THEY HAVE ANY . PLEASE DO WRITE IT AGAIN .