افغانستان میں پانچ مہینوں کی قید، ایک ڈراؤنا خواب

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2014
بدھ کے روز گلستان جوہر میں اپنے اپارٹمنٹ فیض اللہ خان، ان کی اہلیہ ثانیہ فیض اور ان کے بچے ایک لیپ ٹاپ کے اردگرد جمع ہیں اور انٹرنیٹ پر ان کی قید اور رہائی کے بارے میں خبریں تلاش کررہے ہیں۔ —. فوٹو فہیم صدیقی/وہائٹ اسٹار
بدھ کے روز گلستان جوہر میں اپنے اپارٹمنٹ فیض اللہ خان، ان کی اہلیہ ثانیہ فیض اور ان کے بچے ایک لیپ ٹاپ کے اردگرد جمع ہیں اور انٹرنیٹ پر ان کی قید اور رہائی کے بارے میں خبریں تلاش کررہے ہیں۔ —. فوٹو فہیم صدیقی/وہائٹ اسٹار

ملالہ یوسف زئی، سراج الحق اور سلیم صافی کے درمیان کسی قسم کا کوئی تعلق تلاش کرنا مشکل ہے۔

اس کم سن طالبہ کو تعلیم کے لیے ان کی عالمی مہم کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جماعت اسلامی کی امیر ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشش کررہے ہیں، اور معروف براڈکاسٹر اپنےاخباری کالموں اور اسٹوریز کے ایک سلسلے کے حوالے سے پہنچانے جاتے ہیں۔

لیکن فیض اللہ خان کے معاملے میں ان تینوں میں سے ہر ایک نے یادگار کردار ادا کیا، اور ان کی افغانستان میں ننگر ہار جیل سے رہائی کو ممکن بنایا۔

وہ کہتے ہیں، ’’میں اپنے ادارے کی انتظامیہ سے لے کر صحافتی تنظیموں تک اور دونوں ملکوں کی حکومتوں سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک ہر ایک کا شکر گزار ہوں۔ ہر ایک نے اپنا کردار ادا کیا، یہی وجہ ہے کہ میں اپنے وطن واپس لوٹ آیا ہوں۔ لیکن جس طرح ان تینوں نے میرا کیس اُٹھایا اور اس کی مسلسل پیروی کی، یہ کسی کے تصور سے بالاتر ہے۔‘‘

دوسرے لوگ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم ان تینوں نے اس معاملے کو میڈیا کی چکاچوند سے دور رکھا، اس لیے کہ فیض اللہ کا خیال ہے کہ اس طرح ان کی رہائی کے کیس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ملالہ نے سوات کے مقامی اخبار میں فیض اللہ کی مشکلات کے بارے میں شایع ہونے والی اسٹوری پڑھنے کے بعد ان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے کرزئی حکومت کے اعلٰی سطح کے حکام سے رابطہ کیا ۔

سراج الحق نے ان کو آزادی دلوانے کے لیے پڑوسی ملک کے ساتھ کئی جماعت اسلامی کے دہائیوں پرانے رابطوں کو استعمال کیا۔

جبکہ سلیم صافی نے فیض اللہ کی محفوظ واپسی کے لیے اپنے صحافتی رابطوں کا استعمال کیا۔

فیض اللہ اے آر وائی نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک تھے اور انہیں افغانستان کے صوبے ننگرہار کے شہر لالپورہ میں 25 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا۔

35 سالہ صحافی کو جلال آباد کی ایک عدالت نے ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے چار سال قید کی سزا سنائی۔

کراچی یونین آف جرنلسٹ کے زیراہتمام کراچی پریس کلب پر ایک مظاہرے میں شریک صحافی فیض اللہ کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو آن لائن
کراچی یونین آف جرنلسٹ کے زیراہتمام کراچی پریس کلب پر ایک مظاہرے میں شریک صحافی فیض اللہ کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو آن لائن

افغانستان میں استغاثہ ابھی فیض اللہ پر ’جاسوسی‘، ’ملکی سلامتی پر سمجھوتہ‘ اور ’دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش‘ کے الزمات کے تحت مزید پچیس سال قید کی سزا دلوانے کی تیاری کررہی تھی کہ صدر نے فیض اللہ کو معاف کرتے ہوئے اپنے عہدۂ صدارت کے آخری دن ان کی رہائی کے احکامات جاری کردیے۔

ان کے خاندان کے لیے طویل اور مایوس کن انتظار بالآخر ختم ہوگیا۔ بدھ کی گرم سہہ پہر کو جب میں اس عمارت میں داخل ہوا، جہاں وہ رہتے ہیں، تو میں نے دیکھا کہ ان کا چار سال کا بیٹا اور دو سال کی بیٹی ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنے گھر کی تیسری منزل کی بالکونی میں ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ گھر کے اندر بھی یہ بچے کبھی صوفے سے پھسل کر نیچے آتے اور کبھی بے تکلفی کے ساتھ اپنے والد کی گود میں بیٹھ جاتے۔ اسی دوران ان کی رہائی پر مبارکباد دینے کے لیے آنے والے رشتہ داروں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔

فیض اللہ اپریل میں کسی بڑی خبر کی تلاش میں پشاور پہنچے تھے۔ انہیں پاکستانی اور افغان حکام کے درمیان مذاکرات کے ساتھ مغربی سرحدی علاقوں کی سیکورٹی صورتحال کی کوریج کرنی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا کبھی افغانستان میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں تھا، اور انہیں صرف اس وقت احساس ہوا کہ وہ افغانستان میں ہیں، جب انہیں افغان انٹیلی جنس حکام نے پکڑ لیا۔ لیکن افغانستان میں رہنے کا یہ ڈراؤنا خواب ایک معجزے کی صورت میں ختم ہوا۔

’’مجھے اپریل میں جیل بھیج دیا گیا، اور مئی میں مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں تیسرے بچے کی ولادت ہونے والی ہے۔ میں اپنے گھر والوں کو بہت شدت سے یاد کررہا تھا اور اس خبر نے مجھے مزید دکھی کردیا تھا۔ میں نے خود کو بے انتہا بے یار و مددگار محسوس کیا۔ لیکن میں اس موقع پر اپنی اہلیہ کی تعریف کروں گا کہ اس نے آگے بڑھ کر ایک حقیقی مجاہد کا کردار ادا کیا۔‘‘

ان کی مجاہدہ بیوی ثانیہ فیض نے اپنے شوہر کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے ثابت قدمی کے ساتھ مہم کا آغاز کیا۔

انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی، اور اس ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ ہر ایک متعلقہ حکام اور بااثر افراد سے ملاقات کی۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنی بیٹی کے گالوں کو پیار سے تھپتھپایا اور کہا ’’میں ان پانچ مہینوں کے دوران اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے قابل نہیں تھی۔ اپنی توجہ فیض کی رہائی پر مرکوز کرنے کے لیے میں نے انہیں اپنی والدہ کے گھر چھوڑ دیا۔ میں نے صبح سے شام تک کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ایک رکشہ حاصل کرلیا تاکہ میں لوگوں سے مل سکوں، اجلاسوں اور مظاہروں میں شرکت کرسکوں، عدالت میں حاضر ہوسکوں اور صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو متحرک کرسکوں۔‘‘

2008ء میں فیض اللہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھنے سے قبل ثانیہ خود بھی صحافی تھیں، وہ جانتی تھیں کہ کس طرح کے چینلز کو استعمال کیا جائے اور کن لوگوں سے رابطہ کیا جائے۔

وہ تین مرتبہ اسلام آباد اور ایک مرتبہ کوئٹہ گئیں، یہاں تک کہ طورخم کی سرحد پر فیض اللہ کا استقبال کرنے کے لیے صحافیوں اور خیبر ایجنسی کی انتظامیہ کے ساتھ وہ خود بھی موجود تھیں۔

کراچی یونین آف جرنلسٹ کے اراکین فیض اللہ کی افغانستان سے رہائی کے بعد کراچی پریس کلب آمد پر انہیں ہار پہنا کر مٹھائی کھلارہے ہیں۔ —. فائل فوٹو آئی این پی
کراچی یونین آف جرنلسٹ کے اراکین فیض اللہ کی افغانستان سے رہائی کے بعد کراچی پریس کلب آمد پر انہیں ہار پہنا کر مٹھائی کھلارہے ہیں۔ —. فائل فوٹو آئی این پی

ان کا کہنا تھا ’’جب فیض ننگر ہار کی جیل میں قید تھے تو میں نے یہاں سے انہیں باقاعدگی کے ساتھ کچھ رقم بھجوانے کا ایک ذریعہ تلاش کرلیا تھا۔ میں نے یہ سب اکیلے کیا، اور کبھی امید نہیں کھوئی۔ میں نہیں جانتی کہ میں نے کہاں سے یہ طاقت، صبر اور حوصلہ حاصل کیا۔بہرحال کسی نہ کسی طرح میں نے یہ کیا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ سب اب یادوں کی صورت اختیار کرگیا ہے، جن کے ساتھ ہم کبھی رہنا نہیں چاہتے۔‘‘

یہ سب کہتے ہوئے ان کی آواز بھرّاگئی تھی اور ان کی آنکھوں سے آنسو جھلملانے لگے تھے۔

کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد فیض اللہ نے مجھ سے کہا کہ میں انہیں کراچی پریس کلب چھوڑ دوں، جہاں ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ منعقد کیا جارہا ہے۔

گلستان جوہر میں ان کے گھر سے پریس کلب تک موٹرسائیکل پر پندرہ کلومیٹر طویل اس سفر کے دوران پاک افغان تعلقات پر فیض اللہ کے تجزیے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ انہوں نے جیل کی قید کے دوران بھی سچائی کی تلاش سے اپنے صحافتی ذہن کو روکا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا’’میں اپنی رہائی کے لیے افغان حکومت کے تعاون کے لیے شکرگزار ہوں، لیکن آپ جانتے ہیں عمران بھائی، یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم اب کوئی اچھے پڑوسی نہیں ہیں۔ پانچ مہینوں کی قید کے دوران میں ہر قسم کے افغانیوں سے ملا، جن میں میڈیا پرسنز، حکام، سیکورٹی اہلکار اور سفارتکار بھی شامل تھے۔ اور یہ سب یقین رکھتے ہیں کہ یہ دونوں ملک دوست نہیں ہیں اور شاید کبھی دوست نہیں بن پائیں گے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں