عاشقانِ جمہوریت بمقابلہ دشمنانِ جمہوریت

شائع October 9, 2014
اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے حامیوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا —  فوٹو سہیل شہزاد
اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے حامیوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا — فوٹو سہیل شہزاد

اگر قومی اسمبلی کے حلقے این اے 125 کی طرح کچھ مزید حلقوں میں انتخابی بے قاعدگیاں سامنے آتی ہیں تو “گو نواز گو” کا نعرہ مزید تقویت پا جائے گا اور نواز لیگ کی حکومت کا خاتمہ اور مڈ ٹرم انتخابات کا انعقاد حالات اور وقت کی ضرورت بن سکتا ہے۔

بروز جمعہ ڈان میں چھپنے والی خبر کے مطابق لاہور کے حلقہ این اے 125 کے انتخابات میں بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکشن ٹربیونلز کی الیکشن کمیشن کو بھیجی گئی رپورٹس کے مطابق 11 حلقوں میں مُنظم اور 5 حلقوں میں جزوی دھاندلی ہوئی۔

لاہور کا حلقہ این اے 125 ان چار حلقوں میں سے ایک ہے جس کی تحقیقات کا مطالبہ تحریک انصاف 15 مئی 2013 سے کر رہی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کا یہ مطالبہ بعد ازاں 30 حلقوں میں انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات تک پہنچ گیا۔ اب ایسی خبریں سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے نواز لیگ پر انتخابات میں دھاندلی کرنے کے الزامات سچ ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے اور ان حالات کی روشنی میں مستقبل کے بارے میں تجزیہ کیا جائے تو کچھ ایسی صورتحال آتی دکھائی دے رہی ہے، جس میں یا تو حکومت اپنے ہی اعلان کردہ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی ثابت ہونے پر گھر چلی جائے گی، یا وزیر اعظم دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مڈ ٹرم انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دھاندلی کے ثبوت سامنے آنے پر تھرڈ ایمپائر ہی حکومت کو چلتا کردے۔

پہلی صورتحال کے پیدا ہونے کی صورت میں نواز لیگ پر اِنتخابی دھاندلیوں کے کبھی نہ مٹنے والے داغ لگ جائیں گے۔ جس کے بعد مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں نواز لیگ کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہوگا۔ پہلے ہی شریف برادران آج تک آئی ایس آئی سے پیسے لے کر آئی جے آئی بنانے اور مشرف سے معاہدے کے تحت سعودی عرب جانے پر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔


پڑھیے: حمید گل نے آئی جے آئی بنانے کی ذمے داری قبول کرلی


دوسری صورتحال پیدا ہونے کے لیے لازمی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنے قریبی عزیز وزیروں کی صحبت سے دور ہو کر اپنی دانائی و صلاحیتوں (اگر ہیں تو) کو استعمال کریں اور کچھ ایسے اقدامات کر دیں جن سے عوام کو خاطر خواہ فائدہ ہو اور پھر نواز شریف صاحب ملک میں جاری بے یقینی کی صورتحال کو ڈھال بناتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ اس طرح نواز لیگ دھاندلی کے ان مٹ داغ سے بھی بچ جائے گی اور آئندہ ہونے والے انتخابات میں بھی سینہ تان کر مقابلہ کر سکے گی۔

تیسری صورت میں اگر امپائر کے ذریعے حکومت جاتی ہے تو بھی فائدہ شاید نواز لیگ کو ہی ہوگا اور ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر نواز لیگ سیاسی شہید ہونے کا رُتبہ پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

ویسے تو عاشقانِ جمہوریت وزیر اعظم کے استعفے کے خلاف ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کی بالادستی کے لیے لازمی ہے کہ وزیر اعظم کچھ ہزار لوگوں کے دھرنے کے سبب مستعفی نہ ہوں۔ مگر اِن جمہوریت کے عاشقوں کو وقت کی نزاکت کو بھی سمجھنا چاہیے اور نواز لیگ کے سیاسی مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں نواز لیگ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دے دینا چاہیے۔

اگر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ میں موجود ایک جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ مگر ایسا وہ یقیناً اس لیے کر رہی ہیں تاکہ کل کو جب کوئی دوسری جماعت برسر اقتدار آئے تو پھر کوئی جماعت کچھ ہزار لوگ لے کر اسلام آباد میں دھرنا دینے نہ آجائے۔ دراصل اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو بچا کر اپنا اُلّو ہی سیدھا کر رہی ہیں۔

اصل میں ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ یہ عاشقانِ جمہوریت یہ نہیں سمجھتے کہ عمران خان کا ساتھ دینے والوں کے لیے جمہوریت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ تمام مظاہرین کتابوں میں درج جمہوریت کے فوائد سے تو آشنا ہیں مگر حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے ناواقف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تحریکیوں نے اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک حقیقی جمہوریت دیکھی ہی نہیں ہے۔

اِن کی بد قسمتی ہے کہ ان کی اکثریت نے ہوش ہی مشرف کے دور میں سنبھالا جو کہ معاشی اور سیکیورٹی کے اعتبار سے تو قدرے بہتر تھا مگرتھا ایک ڈکٹیٹر کا دور۔

یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں آنا شروع ہوئیں، جنہوں نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اچھی باعزت نوکری کے ساتھ ساتھ اچھی تنخواہیں دیں۔ بینکوں نے آسان اقساط پر گاڑیاں بانٹیں۔ موبائل کمپنیوں نے نوجوانوں کو ٹیکنولاجی جیسی نعمت سے روشناس کروایا۔ میڈیا کے ذریعے گھر بیٹھے لوگوں کو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا پتہ چلا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے لوگ ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں سے ہمنوا ہوئے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لائق طالب علموں نے بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھے۔ ترقی پزیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پاپ میوزک نوجوان دلوں پر راج کرنے لگا۔

اس طرح تحریک انصاف کے جلسوں میں آنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ ملٹی نیشنلز میں کام کرتے ہیں۔ بینکر ہوتے ہیں۔ آئی ٹی اور موبائیل کمپنیوں کے ملازمین ہوتے ہیں۔ والدین کی کمائی پر پڑھنے والے نجی یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس ہوتے ہیں۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرکے پاکستان چھٹیوں میں آئے ہوئے انگلش سپیکنگ ممّی ڈیڈی ہوتے ہیں۔ ویک اینڈ پر انگریزی فلمیں دیکھتے ہیں اور اب اسلام آباد میں جاری دھرنے میں شریک ہو کر ویک اینڈ مناتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی کچھ ریاستوں میں برپا ہونے والے انقلاب کو پاکستان میں عمران خان کے ذریعے لانے کے خواب دیکھتے ہیں۔


مزید پڑھیے: مشکل موازنہ


اچنبھے کی بات یہ بھی ہے تحریک انصاف کے جلسوں میں جانے والے نوجوانوں کے والدین بھی اپنے بچوں کو جمہوریت کے فوائد یا پاکستان کے لیےجمہوریت کی ضرورت کے بارے میں نہیں بتاتے۔ دہائیوں کا تجربہ رکھنے کے باوجود بھی اِن کے والدین اپنی اولادوں کو یہ نہیں بتاتے کے پاکستان کا مستقبل منتخب شدہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی روشن ہو سکتا ہے، جہاں فیصلے ایک بندہ نہیں بلکہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کے اِن والدین نے بھی ہوش سنبھالتے ہی اس ملک میں مارشل لا دیکھا ہوگا اور اگر انھوں نے جمہوریت کا مزہ چکھا بھی ہوگا تو وہ کچھ دیر کے لیے ہی ہوگا۔ جیسا کہ اس ملک کی بد قسمتی رہی ہے کہ جب بھی جمہوریت نے پھلنے پھولنے کی کوشش کی تو کسی فوجی ڈکٹیٹر نے اس پر شب خون ماردیا اور سوائے ایک دفعہ کے کبھی بھی جمہوریت طے شدہ دور پورا نہیں کر سکی۔

لہٰذا اس دور کے پڑھے لکھے نوجوانوں پر عمران خان کا ساتھ دینا فرض بنتا ہے۔ مگر عمران خان کو اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ نوجوان بہت جلدی نتائج چاہتے ہیں۔ ابھی پاکستان میں اور دنیا کے دیگر ممالک میں رہائش پزیر پاکستانی عمران خان کے ساتھ گو نواز گو کا نعرہ تو لگا رہے ہیں۔ مگر اگر عمران خان اپنے کیے ہوئے وعدوں کو پورا نہ کر سکے تو یہی نوجوان اپنے کیے پر شرمندہ ہوں گے اور عمران خان کو گالیاں دینے میں سب سے آگے ہوں گے۔

عمران خان کے لیے یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ اگر وہ کسی بھی طرح اقتدار میں آجاتے ہیں تو انھیں فوری طور پر نتائج دینا ہوں گے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان نوجوانوں کی عمروں میں بھی اضافہ ہوتا ہوجائے گا۔ یہ ابھی کے نوجوان جلد ہی پریکٹیکل لائف کے چیلنجز سے آشنا ہوجائیں گے اور پھر انہیں اندازہ ہوگا کہ وہ نوجوانی کی کچھ دیگر غلطیوں کے ساتھ ساتھ عمران خان کو سپورٹ کرنے کی غلطی بھی کرچکے ہیں۔

عمران خان کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا ساتھ دینے والے اصل میں عمران خان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس نظام اور دو پارٹیوں سے تنگ آچکے ہیں اور چونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے، اس لیے وہ عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف عمران خان کا کرکٹ کریئر ہے۔ ورنہ تو سٹیٹس کو کو توڑنے کا نعرہ تو اصغر خان نے بھی لگایا تھا۔ مگر وہ کامیاب نا ہوسکا۔


جانیے: اصغر خان کیس فیصلے کے سیاسی اثرات


جو بھی کہیں۔ یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ عمران خان کا گو نواز گو کا نعرہ اس وقت تک ایک کامیاب نعرے میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس کی وجہ عمران خان کی ڈھٹائی ہے جو کہ پچاس روز گزرنے کے بعد بھی وزیراعظم کے استعفے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔

جیسا کہ کچھ سیاسی عطائیوں اور حکیموں کی طرف سے مڈ ٹرم انتخابات کی پیشنگوئی کی جارہی ہے تو بس اب یہ دیکھنا ہوگا کہ مڈ ٹرم انتخابات کا انعقاد کس صورت میں ہوگا؟ کیا جوڈیشل کمیشن انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے نتیجے میں اس حکومت کو گھر بھیجے گا؟ وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خود مستعفی ہو جائیں گے؟ یا پھر تھرڈ ایمپائر انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے انتخابات کا اعلان کرے گا۔

پارلیمنٹ میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کی نواز لیگ کے ساتھ یکجہتی کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ جونہی مڈ ٹرم انتخابات کی ہوا چلی ہے تو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی گئی ہیں۔ اِس خاص وقت پر بلاول بھٹو زرداری کا کراچی میں جلسے کا اعلان اور پنجاب میں سیاسی بیٹھکیں پیپلز پارٹی کی آنے والے انتخابات کے لیے تیاری کا عندیہ ہی تو دیتی ہیں۔

اور تو اور ایک دم سے ہی مولانا طاہرالقادری کی جانب سے بھی انتخابات میں حصّہ لینے کا اعلان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مڈ ٹرم انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ جس کا عندیہ کسی کی جانب سے مولانا صاحب کو دے دیا گیا ہے۔

مڈ ٹرم انتخابات کسی بھی صورت میں ہوں۔ تحریک انصاف کا پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کا خواب شاید شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور اس کی وجہ چار صوبوں میں سے دو میں تحریک انصاف کی عدم موجودگی ہے۔

ایسی صورتحال میں پھر پاکستان پیپلز پارٹی ہی بچتی ہے جو کہ چوتھی مرتبہ حکومت بنانے کے ارادے سے انتخابات میں حصّہ لے گی اور اس مقصد کے لیے پارٹی کی جانب سے محترمہ بینظیر بھٹو کے صاحبزادے کو میدانِ سیاست میں اتارا جارہا ہے۔

لہٰذا آئندہ ہونے والے انتخابات میں اصل میدان جنگ پنجاب ہی ہوگا اور دیکھنا یہ ہوگا کہ آیا عمران خان پنجاب میں اپنی پارٹی کو مستحکم کرتے ہیں یا پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

islamabadian Oct 09, 2014 06:02pm
One sided unrealistic blog neither nawaz will go nor third umpire will do anything and Mid Term election is day dreaming IK is just exploiting the youth and take them to dead end where there is nothing but but dis appointment
Azmat Ali Oct 09, 2014 09:56pm
@islamabadian: You are 100% right. Peoples are righting whatever they are thinking but never writing after discussing with atleast 100 common peoples. This country will never ever go for midterm elections even #IK came to power who is showing himself more democratic than anyother. One thing we need to realize that #IK do the politics in the way like new comer. He learned nothing from 18 years career. We can see these days he is persuing the support from #SR and #TUQ. Shame for us that we support # IK.

کارٹون

کارٹون : 12 جولائی 2025
کارٹون : 11 جولائی 2025