'عسکریت پسند تنظیموں کی لیاری پر یورش'

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

کراچی: لیاری کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہاں گینگ وار کے عروج کے دوران مذہبی مدرسے اپنا راستہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اب کئی مہینوں سے علاقے کے عمائدین نے اس علاقے میں جاری گینگ وار میں کچھ کمی لانے کی کوشش کی ہے۔

تاہم حالیہ ہفتوں میں ایسی اطلاعات ملی ہیں، جن کے مطابق مذہبی مدرسے اور کالعدم تنظیمیں اس علاقے کے لوگوں کو بھرتی کررہی ہیں، جو یہاں کے رہائشیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، انہیں خطرہ ہے کہ یہاں کی پہلے سے پیچیدہ صورتحال ہاتھوں سے نکل سکتی ہے۔

اس علاقے کے ایک سینئر کارکن اور نیشنل عوامی پارٹی کے سابق رکن لالہ فقیر محمد نے ڈان کو بتایا کہ اسلحے کی بھاری تعداد مسلسل لیاری میں آرہی ہے۔

انہوں نے کہا ’’جس طرح کے ہتھیار گینگ وار کی لڑائی میں رات بھر استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی آوازیں مقامی طور پر تیار کیے گئے ہتھیاروں سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن جب سے ہم متحرک ہوئے ہیں، ہم خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے کہ اس طرح ہماری زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘‘

چار دن پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی کے دھوبی گھاٹ کے قریب ایک ٹرک کو روکا تھا۔ اس ٹرک سے ہتھیاروں کی بڑی تعداد برآمد ہوئی تھی، جن میں سب مشین گنیں، اسنائپر رائفلز اور راکٹ لانچرز شامل تھے، ساتھ ہی چالیس کلو چرس بھی قانون نافذ کرنے والےاداروں کے اہلکاروں نے اپنے قبضے میں لے لی تھی، ٹرک کے ڈرائیور اور اس کے ہیلپر کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مزید تفتیش سے یہ انکشاف ہوا کہ اسلحے کی یہ کھیپ بلوچستان کے قلعہ سیف اللہ سے آرہی تھی اور اس کو لیاری پہنچایا جانا تھا۔

کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے بتایا کہ ہتھیاروں کی اس کھیپ کو لیاری کے گینگسٹرز اور مدرسوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ یہ مدرسے اب لیاری میں نہایت کھل کر کام کررہے ہیں۔

’’لیکن بحیثیت ایک پولیس اہلکار کے ہمارے لیے ایک مدرسے پر چھاپہ مارنا بہت مشکل ہوجائے گا، اس لیے کہ انہیں لوگوں کی ہمدردی حاصل ہوتی ہے، اور اس کے نتیجے میں ایک بڑا ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا۔‘‘

اس علاقے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ دریاآباد میں نیازی چوک، بغدادی میں شاہ بیگ لین اور نیاآباد ایسے معروف علاقے ہیں جہاں سے کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں مثلاً تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، لشکرِ جھنگوی اور جماعت الدعوۃ پچھلے تین سالوں سے خاموشی کے ساتھ کام کررہی ہیں۔

مذکورہ رکن نے مزید کہا ’’ان کے کاموں میں دیگر چیزوں کے ساتھ دکانداروں اور مقامی باشندوں سے صدقہ مانگنا، قربانی کے جانوروں کھالیں طلب کرنا اور اس علاقے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بھرتی کرنا شامل ہیں۔‘‘

اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مذکورہ کارکن نے بتایا کہ دو سال قبل دو خواتین خودکش بمبار پشاور میں گرفتار ہوئی تھیں، اور مزید تفتیش سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان دونوں کا تعلق لیاری کے نیازی چوک سے تھا۔

فقیر محمد نے کہا ’’یہ ایک پسماندہ علاقے کی جانی پہچانی بدقسمتی ہے۔ تعلیم کی کمی اور بے روزگاری نے اس طرح کے راستے کھولے ہیں۔ لیاری میں ایک ڈبل گیم کھیلا جارہا ہے۔ اگر گینگسٹرز علاقے میں موجود ہیں تو مذہبی انتہاءپسند ایک متبادل قوت بننے جارہے ہیں۔‘‘

اس علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ تقریباً آٹھ سے دس گھروں کو خالی کرنے پر مجبور کرنا خطرے کی گھنٹی ہے، یہ اس تازہ ترین تشدد کی لہر کی جانب اشارہ ہے جو لیاری کے ریکسر لین، کلاکوٹ، چاکیواڑا، نیازی چوک اور کھڈا مارکیٹ کے علاقوں میں حالیہ دنوں میں جگہ لے رہی ہے۔

ریکسر لین اور کلاکوٹ کے علاقوں میں جاری لڑائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں اس وقت شدت آگئی ہے، جب سے امجد لاشاری کے لوگ شامل ہوئے ہیں، جو کالعدم امن کمیٹی (پی اے سی) کے ساتھ رسّہ کشی میں مشغول ہیں۔

سابق یونین ناظم رؤف بلوچ کے ایک بھائی امجد لاشاری کو اس سال جون کے دوران پولیس نے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں گولی ماردی تھی، جس کے بارے میں اس کے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ پی اے سی کے رہنما عذیر بلوچ کے قریبی لوگوں نے کروایا تھا۔

اس سب کے درمیان قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار ہے، جسے یہاں کے رہائشی اور جنگجو گروپ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جیسا کہ فقیر محمد کہتے ہیں ’’ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی ایک یا دوسرے گروپ کا ساتھ دے رہے ہیں ، جس سے ان کے لیے مدد حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘

ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو کہتے ہیں کہ کراچی میں جاری آپریشن کے دوران پولیس اپنے جوانوں کو کھونے کے باوجود اپنا فرض ادا کررہی ہے۔

لیاری میں کالعدم تنظیموں کی موجودگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’لیاری میں ان کا اثرورسوخ ایسا نہیں ہے، جیسا کہ انہوں نے کراچی ویسٹ میں حاصل کرلیا ہے۔‘‘

لیکن اس علاقے کے رہنے والے ان کے اس بیان سے متفق نہیں ہیں۔ جیسا کہ ایک کارکن نے بتایا ’’کالعدم مذہبی گروپس محض اس علاقے میں موجود ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ اپنا اثرورسوخ اور اپنی تعداد میں بھی اضافہ کررہے ہیں۔ یہ بس کچھ دنوں کی بات ہے وہ یہ یہاں کی تیسری قوت بن جائیں گے، آنے والے ہفتوں کے اندر اندر اس قوت کا یہاں کے لوگ سامنا کرنے پر مجبور ہوں گے۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں